کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 381
ہے جیسا کہ ڈیروی صاحب نے نقل کیا مگر کیا اس کلام کے نتیجہ میں اس کی روایات ضعیف شمار ہوتی ہیں؟ قطعاً نہیں۔ علامہ ذہبی رحمہ اللہ انھیں ’’ الامام المحدث العالم‘‘ کے بلند القاب سے یاد کرتے ہیں۔ (السیر: ج ۱۲ ص ۶۱۹) امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اپنے شاگرد رشید علامہ البرقانی رحمہ اللہ سے فرمایا کہ یحییٰ کی روایت ’’ الصحیح‘‘ میں نقل کرو۔ نیز یہ بھی فرمایا کہ ’’ لا بأس بہ عندی و لم یطعن فیہ احد بحجۃ ‘‘ وہ میرے نزدیک لا بأس بہ ہیں اور کسی نے بھی دلیل کی بنا پر ان پر کلام نہیں کیا۔ امام ابوحاتم فرماتے ہیں:’’ محلہ الصدق‘‘ (تاریخ بغداد: ج ۱۴ ص ۲۲۱) ڈیروی صاحب کی دیانت وامانت کی داد دیجیے وہ تاریخ بغداد سے یحییٰ بن جعفر پر جرح تو نقل کرتے ہیں مگر اسی کتاب میں جو یہ توثیق بلکہ جرح کی جو تردید امام دارقطنی رحمہ اللہ نے کی اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہی نہیں ڈیروی صاحب نے یہ ہوشیاری بھی دکھلائی کہ صرف تاریخ بغداد سے یہ جرح نقل کر دی اور کسی دوسری کتاب کی طرف التفات کی زحمت نہ فرمائی۔ جب کہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے یہ کہہ کر ’’ والدارقطنی فمن اخبر الناس بہ۔‘‘ (دارقطنی سب سے زیادہ اسے جانتے تھے) امام دارقطنی رحمہ اللہ کی تائید اور موسیٰ بن رحمہ اللہ ہارون کی جرح کی تردید کی ہے۔ (میزان: ج ۴ ص ۳۸۷) محدث موسیٰ بن ہارون نے جو کہا تھا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ یحییٰ جھوٹ بولتے تھے جیسا کہ ڈیروی صاحب نے نقل کیا تو علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے السیر ، میزان اور المغنی (ج ۲ ص ۷۳۸) میں اس کی یوں وضاحت کی ہے کہ اس سے مراد روایت حدیث میں جھوٹ بولنا نہیں۔مسلمہ رحمہ اللہ بن قاسم کہتے ہیں کہ وہ ’’ لیس بہ بأس‘‘ ہے ۔ لوگوں نے اس میں کلام کیا ہے(لسان : ج ۶ ص ۲۶۶) پھر وہ منفرد بھی نہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ اس کے متابع ہیں اور اپنی مسند (ج ۲ ص ۳۲۶) میں یہی حدیث وہب بن جریر سے روایت کی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اسے احمد رحمہ اللہ اور ابن ابی خیثمہ رحمہ اللہ سے نقل کرکے لکھتے ہیں:’’ سندہ حسن‘‘ا س کی سند حسن ہے (فتح الباری ج ۱۱ ص ۳۳۷)۔اس لیے یحییٰ بن جعفر رحمہ اللہ پر کلام بے خبری بلکہ سراسر دھوکا پر مبنی ہے۔ ڈیروی صاحب کی مزید تسلی کے لیے عرض ہے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اسی یحییٰ رحمہ اللہ سے ایک اثر السنن الکبریٰ (ج ۲ ص ۲۹۸) میں نقل کیا ہے اوراس کو المعرفۃ میں ’’ اسنادہ