کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 38
رہی یہ بات کہ کتاب القراء ۃ میں ’’أو‘‘ تھا اور حاشیہ میں جو انّ تھا، اسے متن میں ذکر کر دیا،تواس کے متعلق عرض ہے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے پہلے اسے معمر و ابن جریج عن الزہری عن سالم عن ابیہ کی سند سے ذکر کیا ہے، جس میں صراحۃ ً یہ اثر بلاتردد حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ہے کہ: یکفیک قـراءۃ الامام فیما یجھر کہ جس میں امام جہراً قراء ت کرے اس میں امام کی قراء ت تیر ے لیے کافی ہے۔ اس کے بعد فرمایا: وقال ابن جریج وحدثنی ابن شھاب عن سالم او ابن عمرکان ینصت للامام۔۔الخ کہ ابن جریج نے ابن شہاب عن سالم او ابن عمر کی سند سے یہ الفاظ نقل کیے ہیں کہ جب امام بلند آواز سے پڑھتا تو خاموش رہتے اور اس کے ساتھ نہ پڑھتے۔ اب جسے الله تعالیٰ نے علم حدیث کا معمولی ذوق عطا فرمایا ہے ، وہ سمجھتا ہے کہ امام بیہقی یا امام عبدالرزاق ، یہاں معمر اور ابن جریج کا اختلاف بیان کرنا چاہتے ہیں کہ انھوں نے کن الفاظ سے روایت کی ہے، اس لیے یہاں ’’ أو ‘‘ صحیح نہیں ،’’ ان‘‘ ہی صحیح ہے، جیسا کہ حاشیہ میں دوسرے نسخہ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ مصنف عبدالرزاق (ج ۲ ص ۱۳۹) میں ابن جریج کی یہی آخری روایت ’’ ان ابن عمر‘‘ کے الفاظ سے ہی منقول ہے۔ اس سے بھی اگر تشفی نہیں اور شاید مسلکی عصبیت میں نہ ہو، تو مزید عرض ہے کہ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ واما ابن عمر فاصح شیء عنہ ما ذکرہ عبدالرزاق قال انبأنا ابن جریج قال حدثنی ابن شھاب عن سالم ان ابن عمر کان ینصت للامام فیما جھر فیہ الامام ۔الخ‘‘(التمہید : ج ۱۱ ص ۳۶) لیجیے! جناب علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ بھی اسے ’’ ان ابن عمر‘‘ سے ہی نقل کرتے ہیں اور مولانا عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ نے بھی امام الکلام (ص ۲۱) میں ’’ ان ابن عمر‘‘ ہی بحوالہ عبدالرزاق نقل کیا ہے۔ اسی طرح علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہ حضرت عبدالله بن عمر سری میں فاتحہ خلف الامام پڑھتے ،جہری میں نہیں۔