کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 378
شخص ہے جو امام کی اقتدا اختیار کر چکا ہو۔ جس نے ابھی تک امام کی اقتدا نہیں کی وہ اس کا وجوبی طور پر مخاطب نہیں۔‘‘(احسن :۱؍۱۸۳) غورفرمائیے ان عبارتوں میں نماز کے ’’خارج میں‘‘ انصات کے حکم کو مستحب نہیں کہا گیا؟ اور کیا خطبہ نماز سے خارج نہیں؟ اور ’’خطبہ وغیرہ‘‘ کو یہ حکم ضمنی طور پر قرار نہیں دیا گیا؟ انصات کا حکم ’’خطبہ وغیرہ‘‘ کے بارے میں وجوبی ہے جیسا کہ ڈیروی صاحب کہہ رہے ہیں تو یہ حکم ’’نماز کے خارج میں مستحب‘‘ ہونے کے کیا معنی ؟ اور صرف مقتدی کے لیے وجوب کا دعویٰ کیا ہوا؟ امام قاضی خان نے استماع و انصات کو اگر فرض کہا ہے جیساکہ احسن (ج۱ ص ۱۸۵) میں نقل کیا گیا اور اسی سے ڈیروی صاحب خوشی سے پھولے نہیں سماتے تو احسن الکلام میں یہ مولانا صفدر صاحب کا موقف نہیں۔ بلکہ علامہ ابو السعود حنفی نے تو لکھا ہے کہ نماز میں انصات کا حکم وجوبی طور پر ہے۔ واما خارج الصلاۃ فعامۃ العلماء علی استحبابھما لیکن نماز سے خارج انصات و استماع کا حکم عام علماء کے نزدیک استحبابی طور پر ہے(تفسیر ابوالسعود : ۲؍۴۵۹) اور یہی بات مولانا صفدر صاحب نے بتکرار کہی ہے ۔ محض نقل کرنے کو تو مولانا صفدر صاحب نے علامہ آلوسی سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ ’’خارج از نماز سماع اور عدم سماع دونوں کے جواز پر دلیل قائم ہو چکی ہے۔‘‘ (احسن : ۱؍۱۲۷) اس لیے امام قاضی خان رحمہ اللہ سے اگر وجوب نقل کیا ہے تو یہ حقیقۃً ان کا موقف نہیں بلکہ ان کا موقف یہی ہے کہ نماز کے علاوہ ’’خطبہ وغیرہ‘‘ کے بارے میں انصات و استماع کا حکم استحبابی ہے۔ پھر امام قاضی خاں کی عبارت ہی نہیں مولانا صفدر صاحب نے تو علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ کے حوالے سے بھی لکھا ہے : ’’محققین کا بیان ہے کہ چونکہ استماع اور انصات فرض اور ضروری ہے اس لیے حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک خطبہ کے وقت آہستہ درود پڑھنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ ‘‘(احسن : ۱؍۱۸۵) حالانکہ مولانا صفدر صاحب نے محض وزن بڑھانے کے لیے اسے ’’محققین ‘‘ کی طرف منسوب کر دیا جس کی نقاب کشائی ہم توضیح الکلام (ج۲ ص ۱۶۰،۱۶۱) میں کر چکے ہیں