کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 374
میں ابن لہیعہ رحمہ اللہ کی معنعن روایات کو اس کی تدلیس کی بنا پر قابل قبول نہیں سمجھتے جب کہ متاخرین کی روایات میں تخلیط کی بنا پر انھیں قابل قبول قرار نہیں دیتے ۔ اور یہ بات تو ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ اس کی جس روایت کو ہم نے پیش کیا ہے اسے متقدمین میں امام المقری رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں اور روایت بھی معنعن نہیں بلکہ حدثنی ابن غزیہ ہے ۔اس لیے یہ روایت بہرنوع حسن اور قابل اعتبار ہے۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ’’عمارہ بن غزیہ‘‘ کی یہ روایت جسے ابن لہیعہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں یہ عمارہ بھی صاحب کتاب ہیں اور ابن لہیعہ رحمہ اللہ نے اس کی کتاب سے روایات لی ہیں۔ امام عثمان بن صالح السہمی فرماتے ہیں کہ میں نے عمارہ بن غزیہ کی کتاب، ابن لہیعہ رحمہ اللہ کی کتاب سے اخذ کی ہے۔ (التہذیب: ص ۳۷۶ج ۵ وغیرہ) جس سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ ابن لہیعہ رحمہ اللہ کی ابن غزیہ رحمہ اللہ سے روایات ان کی اسی کتاب سے مسموع روایات ہیں، جس سے اس روایت کے متصل اور قابل قبول ہونے میں کوئی ابہام نہیں رہتا۔ والحمد للہ علی ذلک۔ مگر میں نہ مانوں کا کوئی علاج نہیں۔ پچاسی واں دھوکا امام بیہقی رحمہ اللہ پر تحریف کا گھناؤنا الزام امام بیہقی رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ایک قول قراء ت خلف الامام کے بارے میں یوں نقل کیا ہے: کل صلاۃ قرأ فیھا امامک فاقرأ منہ ما قل او کثر ولیس کتاب اللّٰه قلیلا۔ (کتاب القراء ۃ: ص ۱۳۷،۱۹۸ ط دارالکتب، بیروت) کہ ہر نماز جس میں تیرا امام قراء ت کرے ، پس تو بھی اس کو پڑھ ،چاہے تھوڑا ہو یا زیادہ اور کتاب الله قلیل نہیں۔ ڈیروی صاحب اپنے اسی ترجمہ کی بنا پر لکھتے ہیں: اس روایت میں بہت زبردست تحریف کی گئی ہے۔ قرأ فیھا امامک یہ الفاظ محرف شدہ ہیں۔ اصل الفاظ یوں ہیں: ھو امامک فاقرأ منہ ما قل وما کثر