کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 371
ایک اور دھوکا
امام ابن حبان رحمہ اللہ کے کلام سے اعتراض بھی درست نہیں
بلاشبہ دیگر محدثین کے برعکس امام ابن حبان رحمہ اللہ کی یہ رائے ہے کہ ابن لہیعہ رحمہ اللہ کی کتابوں کے جل جانے سے پہلے کی روایات بھی ضعیف ہیں اور اس کا سبب تخلیط نہیں ، تدلیس ہے۔ کیونکہ وہ مدلس ہیں اور کتابیں جلنے سے پہلے بھی وہ متروکین سے تدلیس کرتے تھے۔ چنانچہ التہذیب میں ان کے الفاظ کا ترجمہ ڈیروی صاحب نے یوں کیا ہے۔
’’میں نے ابن لہیعہ رحمہ اللہ کی احادیث کی جانچ پڑتال کی تو میں نے اس کو دیکھا کہ وہ ضعیف راویوں سے تدلیس کرکے ثقہ راویوں کا نام ذکر کر دیتا ہے۔ جن کو اس نے دیکھا ہوتا ہے ۔ پھر جو حدیث اس پر پیش کی جائے اس کو پڑھ دیتا ہے۔ چاہے اس کی حدیث سے ہو یا نہ ہو۔ پس واجب ہے بچنا متقدمین کی حدیث سے جو ان متقدمین نے ابن لہیعہ رحمہ اللہ سے اس کی کتابیں جل جانے سے پہلے روایت کی ہیں کیونکہ ان حدیثوں میں مدلس روایتیں متروک قسم کے راویوں سے منقول ہیں۔‘‘(ایک نظر: ص ۱۷۵،۱۷۶)
جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ تدلیس کی وجہ سے ابن لہیعہ رحمہ اللہ کی ابتدائی دور کی روایات کو ضعیف قرار دیتے ہیں مگر زیر بحث روایت جو حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے کتاب القراء ۃ (ص ۳۱) وغیرہ میں منقول ہے اس میں تو ابن لہیعہ رحمہ اللہ ’’ حدثنی ابن غزیہ‘‘کہتے ہیں اور اس سے روایت بھی ابن یزید المقرئ کرتے ہیں۔ ابن لہیعہ رحمہ اللہ نے ’’ حدثنا‘‘ نہیں کہا ’’ حدثنی‘‘ کہا ہے۔ جو صراحت سماع میں حدثنا سے واضح ہے۔ اس لیے اس روایت کے حسن اور قابل استدلال ہونے میں کیا اشکال رہ جاتا ہے؟ امام ابن حبان رحمہ اللہ جس علت کی بنا پر متقدمین کی روایتوں میں بھی اجتناب کا حکم فرماتے ہیں جب وہ علت بھی مرتفع ہو جاتی ہے تو ان کے حوالے سے اعتراض کی گنجائش کسی انصاف پسند کے ہاں نہیں رہتی۔ مگر یہاں انصاف نہیں ہٹ دھرمی اور ضد ہے