کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 37
التاریخ الکبیر للبخاری (ج ۳ ص ۲۳۴ ق ۱)، الجرح والتعدیل (ج ۲ ص ۲۰۲ ق ۲) ، المجروحین (ج ۲ ص ۵) اتنی نایاب ہیں کہ شیخ الحدیث صاحب کی دسترس سے وہ باہر ہیں۔ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے حوالہ سے ابھی گزرا ہے کہ وہ مجہول ہے(التمہید ج ۱۱ ص ۵۰) بلکہ عبدالله بن ابی لیلیٰ کا ضعیف اور کمزور ہونا توجناب ڈیروی صاحب کے شیخ مکرم کے ہاں بھی مسلم ہے(احسن : ج ۱ ص ۳۱۳) مگر تلمیذ رشید کو ماشاء الله ’’مزید حال معلوم نہیں‘‘ ع دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا آٹھواں دھوکا حضرت عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ کا ایک اثر امام بیہقی رحمہ اللہ نے کتاب القراء ۃ (ص ۱۰۰) میں نقل کیا ہے کہ وہ جہری نمازوں میں خاموش رہتے تھے اور امام کے ساتھ نہیں پڑھتے تھے۔ اس اثر کی سند کے بارے میں میرے مہربان جناب ڈیروی صاحب لکھتے ہیں: ’’اثری صاحب نے اس اثر کے نقل کرنے میں سخت خیانت اور تحریف کا ارتکاب کیا ہے ’’کتاب القراء ۃ ‘‘میں’’سالم رضی اللہ عنہ أو ابن عمر رضی اللہ عنہما ‘‘ تھا اورا س پر ’’ن‘‘ کا نشان ہے جو نسخہ کی طرف اشارہ ہے۔ حاشیہ میں لکھا ہوا ہے اَنَّ، اثری صاحب نے خیانت کا ارتکاب کرتے ہوئے متن سے لفظ أو کو اڑا کر حاشیہ والا اَنّ لکھ دیا اور بڑے دھڑلے سے فرمایا یہ اثر سند کے اعتبار سے صحیح ہے حالانکہ اس میں احمد بن محمد بن احمد الحرشی کون ہے اس کو کس نے ثقہ کہا ہے جھوٹا دعویٰ کون مانتا ہے۔‘‘(ملخصاً ایک نظر: ص ۷۰،۷۱) حقیقت حال ملاحظہ ہو، امام بیہقی رحمہ اللہ نے یہ اثر امام عبدالرزاق کے واسطہ سے نقل کیا ہے، جسے ان کی کتاب المصنف(ج ۲ ص ۱۳۹) میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس لیے احمد بن محمد الحرشی کی توثیق کا مطالبہ ہی بنیادی طور پر درست نہیں۔ پھرا نھیں اگر احمد الحرشی کا ترجمہ و توثیق نہیں ملی، تو یہ غلط فہمی بھی نہ رہے، موصوف حفاظ حدیث میں شمار ہوتے ہیں۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے السیر (ج ۱۴ ص ۴۹۲ ) میں انھیں الامام المحدث العدل کے بلند القاب سے یاد کیا ہے۔ نیز دیکھیے تذکرۃ الحفاظ (ج ۳ ص ۷۹۸)، العبر(ج ۲ ص ۱۶۹)، شذرات (ج ۲ ص ۲۷۵) وغیرہ