کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 367
الحمد۔‘‘(عین الہدایہ : ج ۱ ص ۳۹۰) اس قدر صراحت کے باوجود انھیں حنفی تسلیم نہ کرنا انصاف کا خون کرنے کے مترادف ہے۔ سید امیر علی رحمۃ اللہ علیہ اور مسئلہ آمین احناف اور اہلحدیث کے مابین آمین بالجہر کا مسئلہ بھی مشہور اختلافی مسئلہ ہے، جس کے بارے میں بحث کے اختتام پر سید مرحوم لکھتے ہیں: ’’مجھے عند التحقیق کوئی حدیث قولی اس میں نہیں ملتی ۔ پس بنظر انصاف یہی راجح ہے کہ آمین باخفا ، ہاں جہر کا جواز ہے خصوصی جب کہ بے پڑھوں کی تعلیم مقصود ہو۔‘‘(عین الہدایہ : ج ۱ ص ۳۶۷) بتلائیں ’’غیر مقلدین‘‘ کا ان مسائل میں یہی موقف ہے جس کی ترجمانی سید امیر رحمہ اللہ علی کر رہے ہیں؟ مگر افسوس کہ ڈیروی صاحب کے نزدیک وہ پھر بھی حنفی نہیں۔’’غیر مقلد‘‘ ہیں۔(ایک نظر: ص ۱۷۳) اسی طرح اذان ترجیع کے ساتھ ہے یا نہیں ۔احناف ترجیع کے قائل نہیں۔ سید امیر علی رحمہ اللہ نے بھی کہا ہے:’’حق واضح یہ ہے کہ اذا ن بلا ترجیع ہے‘‘ (عین الہدایہ : ج ۱ ص ۲۹۳) نماز وتر میں بھی وہ تین رکعت پڑھنے کو احتیاط کا تقاضا قرار دیتے ہیں(ایضاً : ص ۵۲۹) دوران خطبہ جمعہ دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھنے کو بھی وہ درست نہیں سمجھتے(ایضاً : ج ۱ ص ۶۵۶،۶۵۷) ۔ یہ اور اس نوعیت کے کتنے مسائل ہیں جن میں انھوں نے حنفی مسلک ہی کی ترجمانی کی ہے۔ بعض مسائل میں ان کا رجحان اگر حنفی موقف کے خلاف ہے تو یہ ان کے ’’غیر مقلد‘‘ ہونے کی دلیل نہیں۔ مولانا عبدالحی رحمہ اللہ لکھنوی کتنے مسائل میں اہل حدیث کے ہمنوا ہیں اس کی دلچسپ تفصیل ہماری تصنیف لطیف ’’مسلک احناف اور مولانا عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ ‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں۔ تو کیا وہ بھی اسی ناطے ’’غیر مقلد ‘‘ہیں؟ اہلحدیث سے ڈیروی صاحب کا بغض مولانا امیر علی رحمہ اللہ نے التذنیب (ص ۳۴) میں اپنی سند اپنے شیوخ حضرت شیخ الکل سید