کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 365
نوٹ تعقیب میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے اس قول پر دیا کہ پانچواں طبقہ وہ ہے جنھوں نے ایک یا دو صحابہ رضی اللہ عنہم کو دیکھا مگر ان سے سماع کی سعادت نہیں ہوئی ، مولانا لکھتے ہیں:
ومن ھھنا قیل لابی حنیفۃ انہ تابعی فقد صح أنہ رای انساً ۔ (تعقیب: ص ۴)
’’اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تابعی ہیں کیونکہ صحیح طور پر منقول ہے کہ انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے ۔‘‘ حالانکہ خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام صاحب رحمہ اللہ کو چھٹے طبقے میں شمار کیا ہے ۔غور فرمائیے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے برعکس مولانا امیرعلی رحمہ اللہ ، امام صاحب کو تابعی قرار دیتے ہیں۔
یہی نہیں’’عین الہدایہ‘‘ جس کے بارے میں ڈیروی صاحب نے لکھا ہے کہ ’’ہدایہ کا ترجمہ عین الہدایہ لکھا اوراس میں اپنے مذہب کا پرچار کیا۔‘‘ (ایک نظر: ص ۱۷۳) ۔ اسی عین الہدایہ کے مقدمہ میں ’’فروع اعمال وظھور اجتہاد‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:
’’امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اپنے زمانے کے علمائے مجتہدین کی نسبت ہمارے نزدیک علماءِ مجتہدین اعظم سے ہیں۔ اس جہت سے کہ اجتہاد میں تو سب مجتہدین سے آگے بڑھ کر نہ ہوں تو برابر ہونے میں کچھ شک نہیں ہے اوراس کا انکار کرنا اہل عناد کا کام ہے۔ پھر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو دو باتوں میں سب پر فضیلت حاصل ہے ۔ ایک یہ کہ امام تابعی رحمہ اللہ ہیں جنھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو بالاتفاق دیکھا ہے جیسا کہ ہم نے مقدمہ فتاویٰ ہندیہ میں مفصل ذکر کیا ہے۔ تو حدیث شریف طوبی لمن رآنی، الحدیث کے مصداق ہیں اور یہ فضل عظیم ہے کہ اس میں اپنے مشارکین سے آپ منفرد ہیں۔ دوم یہ کہ اصول اجتہاد وقواعد استنباط کو اول آپ نے اس شان موجود کے ساتھ تعلیم فرمایا اور امام مالک رحمہ اللہ نے کہا کہ اہل فقہ کے لیے ابوحنیفہ رحمہ اللہ خیر مونس ہیں۔ یعنی سب سے بہترہیں۔ پس یہ دونوں باتیں بلاشبہ قوی دلیل فضیلت ہیں کہ ان میں مناقشہ کرنا انصاف سے خارج ہے۔‘‘(مقدمہ عین الہدایہ: ص ۸۸)