کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 363
انھوں نے سید امیر علی رحمہ اللہ کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’وہ مسلکاً اہلحدیث تھے‘‘ مگر ڈیروی صاحب نے غور نہیں کیا کہ محترم بھٹی صاحب نے اس کا کوئی حوالہ نہیں دیا، نہ ہی انھوں نے امیر علی رحمہ اللہ کا زمانہ پایا۔البتہ قافلہ حدیث میں ان کے شاگرد مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے مولانا امیر علی رحمہ اللہ اہل حدیث تھے۔ اس کے برعکس ان کے تلمیذ رشید مولانا سیدعبدالحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: غیر متصلب فی المذہب الحنفی یتتبع الدلیل و یترک التقلید اذا وجد فی مسألۃ نصاً صریحاً مخالفاً للمذھب غیر منسوخ۔(نزھۃ الخواطر: ج ۸ ص۸۵) ’’وہ حنفی مذہب میں سخت نہ تھے ، دلیل کاتتبع تھے اور جب کسی مسئلہ میں مذہب حنفی کے خلاف غیر منسوخ نص صریح پا لیتے تو تقلید چھوڑ دیتے۔‘‘ گویا وہ متعدل مزاج حنفی تھے۔ عموماً علمائے احناف کی طرح مذہب حنفی میں متشدد نہ تھے۔ جن کا طریقہ یہ تھا کہ مذہب کے خلاف صحیح حدیث کی تاویل کی جائے اور کمزور مذہبی موقف کی بہر نوع وکالت کی جائے۔ مولانا سید امیر علی ، رحمہ اللہ مولانا عبدالحی رحمہ اللہ لکھنوی کی طرح کے حنفی تھے۔ ان کے ترجمہ میں بھی سید عبدالحی رحمہ اللہ مرحوم نے یہی لکھا ہے کہ وہ مذہب حنفی میں متعصب نہ تھے۔’’ یتتبع الدلیل ویترک التقلید اذا وجد فی مسألۃ نصاً صریحاً مخالفاً للمذہب‘‘دلیل کا تتبع کرتے ، جب کسی مسئلہ میں مذہب کے مخالف نص صریح دیکھ لیتے تو تقلید کو چھوڑ دیتے۔‘‘ (نزہۃ الخواطر: ۸؍۸۵)بلکہ مولانا لکھنوی رحمہ اللہ اس طریقہ تحقیق کو ’’ عین التقلید‘‘ قرار دیتے تھے، جس کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔ مولانا لکھنوی کا یہی وصف ڈیروی صاحب کو گوارا نہیں ۔ اس لیے ان کے بارے میں بھی وہ فرماتے ہیں: مولانا عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ کا عبارات میں تحریف کرنا اور احناف کو نقصان پہنچانا عام عادت شریفہ ہے۔(ایک نظر: ص ۴۶) وغیرہ اس لیے اگر مولانا سید امیر علی رحمہ اللہ نے خلاف مذہب حنفی کوئی بات کہی تو ڈیروی صاحب کے لیے وہ قابل برداشت کیونکر ہو سکتے ہیں؟ مولانا سید امیر علی رحمہ اللہ کے تحقیقی ذوق اور بعض مسائل میں حنفی فقہ کے خلاف رائے کی بنا پر اگر کسی نے انھیں اہل حدیث قرار دیا ہے تو