کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 36
۳۔ اسی طرح ان کا یہ فرمانا کہ مراسیل (ص ۱۰۸) میں اس کی روایت حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے موجود ہے۔ یہ بھی محل نظر ہے بلکہ بالکل دھوکا ہے۔ ہمارے ادارہ میں بحمدالله المراسیل لابن ابی حاتم کے تین نسخے ہیں۔ ایک مؤسسۃ الرسالہ مطبوعہ ۱۹۸۲ء کا ۔ اس کے محولہ صفحہ ۱۰۸ پر عبدالله بن ابی لیلیٰ کا ذکر موجود مگراس میں لکھا کیا ہے ؟ قارئین کرام غور فرمائیں، الفاظ ہیں: ’’ما اری لقی ابن عمر‘‘ میرا خیال ہے کہ وہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے نہیں ملا۔ اس میں اولاً تو عدم ملاقات کا ذکر ہے تبھی تو مراسیل میں لائے مگر کس قدر افسوس ہے کہ حضرت شیخ الحدیث صاحب فرماتے ہیں کہ اس کی روایت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے المراسیل میں موجود ہے۔ اِنَّا لِلّٰہ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔! سخن فہمی عالم بالا معلوم شد یہی نہیں، اس کے حاشیہ پر محقق نے وضاحت کی ہے کہ مطبوعہ نسخہ میں مااراہ لقی عمرہے۔ گویا حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا تو قصہ ہی تمام ہوا۔ مطبوعہ نسخہ میں عمر رضی اللہ عنہ ہے ، عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ ہے ہی نہیں، اور ساتھ یہ بھی وضاحت کر دی کہ ’’وھواجود‘‘کہ یہی درست ہے کہ یہاں عمر رضی اللہ عنہ ہے عبدالله رضی اللہ عنہ بن عمر نہیں اور مطبوعہ نسخہ کا جو محقق نے حوالہ دیا ، اس کی وضاحت بھی انھوں نے مقدمہ کے صفحہ ۲۶ پر کر دی ہے کہ ایک مطبوعہ نسخہ حیدر آباد ہند سے ۱۳۴۱؁ھ میں طبع ہوا اور دوسرا ۱۹۶۷؁ء میں بغداد سے جو پہلے نسخہ پر اعتماد کرکے طبع ہوا تھا۔ یہ نسخہ بھی موجود اوراس کے صفحہ ۷۱ پر ’’عمر ‘‘ ہے ابن عمر رضی اللہ عنہما نہیں۔ تیسرا نسخہ دارالکتب بیروت کا جو ۱۹۸۳ء میں طبع ہوا اس کے صفحہ ۹۰ پر بھی عمر رضی اللہ عنہ ہے ،ابن عمر رضی اللہ عنہما نہیں، یہی نہیں علامہ حافظ صلاح الدین العلائی نے جامع التحصیل ص ۲۶۳ میں بھی اس کا ذکر کیا اور وہاں بھی ’’عمر رضی اللہ عنہ ‘‘ ہے ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نہیں۔بتلائیے اس سے بڑھ کر ہم جناب شیخ الحدیث صاحب کی تشفی کس طرح کر سکتے ہیں۔ ۴۔ اسی طرح ان کا فرمانا کہ اس کا مزید حال معلوم نہیں، بجا فرمایا:مگر کیا میزان الاعتدال (ج ۲ ص ۴۸۳)، لسان المیزان (ج ۳ ص ۳۳۰) الضعفاء للعقیلی (ج ۲ ص ۳۱۶)،