کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 359
سکتے ہیں کہ اسے سنداً صحیح یا حسن کہنا درست نہیں،لیکن حسن یا صحیح کہنے والوں کو جھوٹاقرار دینا صحیح نہیں ۔ ڈیروی صاحب بھی اسے جھوٹ سے تعبیر کرکے کم از کم علامہ عراقی رحمہ اللہ ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور علامہ علی رحمہ اللہ قاری وغیرہ کی طرف جھوٹ کی نسبت کا موقع نہ دیں۔ اس فقیرکے بارے میں جو چاہیں کہہ لیں مگر متقدمین پر ایسی حرف گیری کا دروازہ کھولناچھچھورا پن ہے ،علم کی خدمت نہیں۔
خامساً: امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی منقبت میں کہ آپ تابعی تھے کے ثبوت کے لیے ایک یہی روایت پیش کی جاتی ہے کہ امام صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے۹۴ھ میں عبدالله بن انیس سے سنا ، وہ فرماتے تھے: حبک الشیء یعمی ویصم ملاحظہ ہوجامع المسانید للخوارزمی (ج ۱ ص ۲۳) حاشیہ مقدمہ کتاب التعلیم (ص ۳۹)، المناقب للموفق (ص ۳۰) ، الدرالمختار مع رد المحتار (ج ۱ ص ۹۵) وغیرہ۔ ڈیروی صاحب اپنے ان حنفی اکابرین کے بارے میں بھی فیصلہ فرمائیں کہ کیا یہ سب جھوٹ کہہ رہے ہیں؟
سادساً:ڈیروی صاحب کی تشفی کے لیے مزید عرض ہے کہ یہ روایت مسند احمد (ج۵ ص ۱۹۴،ج ۶ ص ۴۵۰) میں امام احمد رحمہ اللہ نے دو مقامات پر ذکر کی ہے۔ اور آپ ہی نے فرمایا کہ مسند احمد کی حدیث، امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک قابل اعتماد اور صحیح ہوتی ہے۔[1]
چنانچہ مولانا محمد حسین نیلوی صاحب نے ندائے حق (ص ۱۸۰) میں ایک روایت کے بارے میں لکھا تھا کہ جو اس حدیث کی صحت پر زور دیتا ہے وہ سنی نما شیعہ ہے یا کم از کم شیعوں کا دست راست اور معاون ہے۔ جس کے جواب میں آپ نے فرمایا ہے:
قارئین کرام نیلوی صاحب جوش جنوں میں کیا کہہ رہے ہیں؟ اس حدیث کی صحت پر امام اہلسنت ،امام احمد رحمہ اللہ بن حنبل نے اعتماد کیا ہے۔ اس لیے
[1] بلکہ آپ حیران ہوں گے محض اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے بحوالہ کنزالعمال یہ اصول ہی بنا دیا کہ کل ما کان فی مسند احمد فھو مقبول فان الضعیف الذی فیہ یقرب من الحسن کہ مسند احمد کی ہر حدیث مقبول ہے۔ اس میں جو ضعیف ہے وہ حسن کے قریب ہے۔ (اعلاء السنن: ۱؍۱۴۲،۲؍۱۶۶)۔