کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 358
اولاً :گزارش ہے کہ راقم کے کلام میں صحت سے مراد معنوی تصحیح ہے ، اسنادی نہیں۔
ثانیاً:ہم تواسے معناً صحیح سمجھتے ہیں جب کہ علامہ علی قاری رحمہ اللہ اسے حسن درجہ سے بلند ، صحیح لذاتہ یا صحیح لغیرہ قرار دیتے ہیں۔بتلایا جائے علامہ علی قاری رحمہ اللہ نے بھی جھوٹ کہا ہے؟ ان کے الفاظ ہیں:
فالحدیث صحیح لذاتہ أو لغیرہ فیرتقی عن درجۃ الحسن لذاتہ لکثرۃ رواتہ وقوۃ صفاتہ۔ (الموضوعات: ص ۱۷۸)
پس حدیث صحیح لذاتہ ہے یا صحیح لغیرہ اور یہ کثرت رواۃ اور قوی صفات کی بنا پر حسن لذاتہ کے درجہ سے بلند ہے۔
ثالثاً: علامہ عراقی رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ چنانچہ حافظ سخاوی رحمہ اللہ انہی کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ اس میں ابوبکر بن ابی مریم ہے اور وہ ضعیف ہے، متھم بالکذب نہیں۔
و یکفینا سکوت ابی داؤد علیہ فلیس بموضوع بل ولا شدید الضعف فھو حسن۔ (المقاصد: ص ۱۸۱)
اور امام ابوداود رحمہ اللہ کا اس پر سکوت کرنا ہمارے لیے کافی ہے لہٰذا یہ موضوع نہیں بلکہ سخت ضعیف بھی نہیں، اس لیے وہ حسن ہے۔ نیز دیکھیے کشف الخفاء (ج ۱ ص ۴۱۰، الشذرہ: ج ۱ ص ۲۴۴) أجوبۃ الحافظ ابن حجر عسقلانی عن احادیث المصابیح : (۳؍۱۷۸۵) مع المشکٰوۃ مطبوعہ المکتب الاسلامی وغیرہ۔ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے بھی الجامع الصغیر (ج ۱ ص ۱۴۵) میں اسے حسن قرار دیا ہے۔ بتلایا جائے اسے حسن قرار دیتے ہوئے کیا: ان حضرات نے ’’جھوٹ بولا‘‘ ہے؟
رابعاً: بقیہ بن ولید اس روایت میں منفرد نہیں، بلکہ شریح بن رحمہ اللہ یزید، محمد رحمہ اللہ بن حرب، یحییٰ البابلتی، عصام رحمہ اللہ بن خالد اور محمد رحمہ اللہ بن مصعب اس کے متابع ہیں جیسا کہ تفصیلاً علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے المقاصد (ص ۱۸۱) میں ذکر کیا ہے۔ لہٰذا بقیہ رحمہ اللہ بن ولید کی بنیاد پر اعتراض ڈیروی صاحب کی بے خبری کی دلیل ہے۔ البتہ ابن رحمہ اللہ ابی مریم اس میں ضعیف ہے، اور وہ منفرد ہے۔ آپ کہہ