کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 356
عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لہ حدیث صالح عن عمرو بن شعیب کہ اس کی عمرو رحمہ اللہ بن شعیب سے حدیث صالح ہے۔ امام یحییٰ القطان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم نے المثنیٰ رحمہ اللہ کی روایت عمر و رحمہ اللہ بن شعیب سے ترک نہیں کی لیکن عطاء رحمہ اللہ سے روایت میں اختلاط کی بنا پر چھوڑی ہے(التہذیب: ج ۱۰ ص ۳۶) اور یہ روایت بھی عمرو بن شعیب ہی سے ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری (ج ۱۲ ص ۴۲) میں مسنداحمد کے حوالہ سے عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ سے روایت ذکر کی ہے کفر باللہ تبرؤ من نسب و ان دق اور اس پر سکوت کیا ہے اور یہ روایت مسند احمد (ج ۲ ص ۲۱۵) میں المثنی بن صباح عن عمرو ہی سے مروی ہے۔ جس سے اس سند کے حوالے سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے رجحان کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے(فتدبر) شیخ شاکر نے بھی اس کوحسن قرار دیا ہے تعلیق المسند نمبر۷۰۱۹ (ج ۱۱ ص ۱۹۰)۔
ڈیروی صاحب نے اپنی تسکین کے لیے شیخ البانی سے السلسلۃ الضعیفہ (ج ۲ ص ۴۲۰) کے حوالے سے اس روایت پر جرح کی مگر انھیں شاید علم نہیں کہ شیخ الالبانی رحمہ اللہ ہی لکھتے ہیں:’’ فمثلہ یستشھد بہ ان شاء اللّٰه ‘‘ کہ اس(المثنیٰ) جیسے سے ان شاء الله استشہاد درست ہے۔ الصحیحہ (ج ۷ ص ۱۱۸۵ ، رقم ۳۳۹۹) اس لیے المثنی کی روایت جب قابل استشہاد ہے اور ابن لہیعہ رحمہ اللہ اس کا متابع ہے۔ تو یہ روایت مردود کیسے ہوئی ؟ یہی وجہ ہے کہ حافظ سیوطی رحمہ اللہ نے جمع الجوامع (ج ۷ ص ۲۰۰، نمبر۲۲۳۵۵) میں اسے حسن قرار دیا ہے۔ علامہ علی رحمہ اللہ المتقی نے بھی کنز العمال (ج ۷ ص ۴۴۲ رقم ۱۹۶۸۸)میں اس کا حسن ہونا نقل کیا ہے۔ یہاں وہ حنفی اصول بھی پیش نظر رہے جو کنزالعمال کی احادیث کے بارے میں ہم پہلے مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کر آئے ہیں۔
تعجب ہے کہ مولانا عثمانی ابن لہیعہ رحمہ اللہ کی روایات کو مطلقاً حسن قرار دیتے ہیں۔ اعلاء السنن (ج ۱ ص ۲۱۲،۲۹۰، ۳۰۸ وغیرہ) اور ڈیروی صاحب کے شیخ مکرم بھی اپنی موافقت میں اسے حسن الحدیث قرار دیں، خزائن السنن (ج ۲ ص ۳۸۵ ، ط اول) بلکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی منقبت میں اس کی منقطع روایت پر بھی اعتماد کیا جائے۔ المناقب للموفق (ج ۱ ص ۱۶) المناقب للکردری(ج ۱ ص ۲۳،۲۴) مگر مخالف مسلک روایت میں وہ ضعیف اور ناقابل