کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 35
۱۔ کیاعبدالله بن ابی لیلیٰ کا جناب عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کا بھائی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا تلمیذ ہونا اس کی توثیق کا باعث ہے؟ قطعاً نہیں۔ تواس سہارے کا کیا فائدہ؟ کہ وہ فلاں کا شاگرد اور فلاں کا بھائی ہے ۔ کیاصحابہ رضی اللہ عنہم سے روایت کرنے والا مجہول نہیں ہو سکتا؟حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا غلام ابوعقیل، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا غلام عبید بن عمیر کیا مجہول نہیں ؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا غلام ابورجاء مجہول نہیں؟ اور موسیٰ بن سعد مولیٰ آل ابی بکر مجہول نہیں ؟ کہاں تک عرض کروں، ان حقائق سے اگر ڈیروی صاحب واقف ہیں تو پھر عبدالله بن ابی لیلیٰ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا شاگرد ظاہر کرنے سے اس کی پوزیشن کا اظہار چہ معنی دارد؟ وہی جو عرض کیا کہ دھوکا دینا۔
۲۔ یہ کہنا کہ طبرانی میں ابن ابی لیلیٰ کا شاگرد قتادہ ہے اوراس کے استاد حضرت عبد رضی اللہ عنہ الله بن عمر ہیں یہ بھی سراسر دھوکا پر مبنی ہے۔ طبرانی کے مطبوعہ نسخہ میں واقعی عبدالله بن ابی لیلیٰ لکھا ہوا ہے۔ جس سے انھیں غلط فہمی ہوئی ،مگر حضرت شیخ الحدیث صاحب کو یہ تو دیکھ لینا چاہیے تھا کہ یہ روایت صحاح سے زائد ہے۔ مجمع الزوائد سے اس کی مراجعت کر لیتے مگر ایسا کیوں نہ کیا؟ یہ زحمت فرما لیتے تو یقینا عبدالله بن ابی لیلیٰ کو قتادہ کا استاد اور حضرت عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ کا شاگرد نہ بتلاتے۔ چنانچہ مجمع الزوائد (ج ۲ ص ۱۴۴ ) میں یہی روایت موجود، اور وہاں عبدالله بن بابی ہے ،عبدالله بن ابی لیلیٰ نہیں۔البتہ مجمع الزوائد میں اس کا حوالہ نہیں وہ ناسخ کی غلطی سے ساقط ہو گیاہے اور علامہ ہیثمی نے فرمایا ہے: رواہ ابوداود خلا قولہ وبرکاتہ کہ یہ روایت ابو داؤدمیں ہے سوائے وبرکاتہ کے لفظ کے۔ اسی طرح مجمع البحرین (ج ۲ ص ۱۵۴،۱۵۵) میں بھی یہ روایت موجود ہے اور اس میں بھی ’’عبدالله بن بابی‘‘ ہی ہے بلکہ یہ صراحت بھی کہ وہ ’’المکی‘‘ ہے ۔ اس کا ترجمہ تاریخ بخاری اور الثقات لابن حبان وغیرہ میں موجود ، اسے عبدالله بن باباہ بھی کہا جاتا ہے۔ لہٰذا المعجم الاوسط میں طباعت کی غلطی سے جناب ڈیروی صاحب کو دھوکا لگا اور اس دھوکا میں وہ دوسروں کو بھی مبتلا کرنا چاہتے ہیں۔