کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 349
بھی احتمال ہے کہ نہ پڑھنے کا اثر پہلے کا ہو۔ اور جب فاتحہ خلف الامام کا حکم معلوم ہوا تو امام کے پیچھے قراء ت کرنے لگے ہوں۔ سکوت و انصات کا حکم مکہ میں نازل ہوا، جیسا کہ عموماً باور کرایا جاتا ہے۔ اب اس کے بعد پڑھنے کا حکم تو ہو سکتا ہے، ممانعت کا نہیں۔ ورنہ لازم آئے گا کہ سورہ اعراف کی آیت قراء ت کی ممانعت کے لیے نہیں تھی۔ ۳۔ رہی طحاوی (ج ۱ ص ۱۴۴) کے حوالہ سے عبید رحمہ اللہ الله بن مقسم کی روایات تو علامہ طحاوی رحمہ اللہ نے انھیں ’’ باب القراء ۃ فی الظھر والعصر‘‘ میں ذکر کرکے واضح کر دیا ہے کہ اس کا تعلق ظہر و عصر کی نماز میں اثبات قراء ت کے ساتھ ہے۔ جس سے ان کا مقصود حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کی تردید ہے جو پہلے ظہر و عصر میں قراء ت کے قائل نہ تھے۔ لہٰذا ان آثار کا فاتحہ خلف الامام سے تعلق ہی نہیں۔ ثانیاً: ان آثار میں ظہر و عصر میں اکیلے نماز پڑھنے والے کی صراحت ہے جیسا کہ اذا صلیت وحدک کے الفاظ اس پر دال ہیں(طحاوی :ج ۱ ص ۱۴۴)۔ بلکہ ایک روایت میں ہے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے عبیدالله بن مقسم نے پوچھا جب تم گھروں میں میری نمازیں پڑھتے ہو تو تم کیا کرتے ہو ؟ (طحاوی : ج ۱ ص ۱۴۴) اس لیے ان روایات کا تعلق اکیلے نماز پڑھنے کے بارے میں ہے ۔ ان سے امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے پر استدلال قطعاً غلط ہے یا زیادہ سے زیادہ یہ استدلال مفہوم مخالف پر مبنی ہے۔ حالانکہ مفہوم مخالف حنفیہ کے نزدیک حجت نہیں۔ جیسا کہ ڈیروی صاحب کے شیخ مکرم نے (احسن الکلام : ج ۲ ص ۱۴۰) میں کہا ہے۔ لہٰذا ڈیروی صاحب کا ان کو ’’صریح روایات‘‘ (ایک نظر: ص ۶۳) قرار دینا بچگانہ حرکت ہے۔ ۴۔ اسی طرح یزید رحمہ اللہ الفقیر سے الاعمش رحمہ اللہ کی روایت میں ’’خلف الامام‘‘ نہ ہونا ان کے الفاظ کے غلط ہونے کی دلیل نہیں ۔ کیونکہ یزید رحمہ اللہ الفقیر سے شعبہ ان الفاظ کو روایت کرتے ہیں اور وہ الاعمش رحمہ اللہ سے زیادہ ثقہ ہیں۔ بلکہ ان کے بارے میں ڈیروی صاحب کے شیخ مکرم کو اس کا اعتراف ہے کہ وہ صرف صحیح حدیث ہی اپنے مشائخ سے نقل کرتے ہیں(احسن: ج۱ ص ۱۸۰) اس لیے شعبہ رحمہ اللہ کی روایت کو جس میں خلف الامام قراء ت کا ذکر ہے خطا کہنا