کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 348
۲۔ عبدالرزاق (ج ۲ ص ۱۴۲) میں ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ آپ ظہر و عصر میں کچھ پڑھتے ہیں توانھوں نے فرمایا :’’نہیں۔‘‘ ۳۔عبیدالله رضی اللہ عنہ بن مقسم حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ جب اکیلے ہو تو ظہر و عصر کی پہلی دو رکعتوں میں ام القرآن اور کوئی سورت پڑھو، آخری دو رکعتوں میں صرف فاتحہ پڑھو (طحاوی :ج ۱ ص ۱۵۴) وغیرہ۔ ۴۔ یزید الفقیر کے شاگرد الاعمش خلف الامام کے لفظ ذکر نہیں کرتے (کتاب القراء ۃ : ص ۸۱) اور مسعر بن کدام سے ان کے شاگرد ابونعیم رحمہ اللہ ،وکیع رحمہ اللہ ، یحییٰ بن رحمہ اللہ سعید، معاویہ رحمہ اللہ بن ہشام ،بکیر رحمہ اللہ بھی یہ لفظ نقل نہیں کرتے (جزء القراء ۃ، ابن ابی شیبہ، طحاوی ،کتاب القراء ۃ) وغیرہ ۔ ترتیب وار ان خدشات کی حقیقت حسب ذیل ہے: ۱۔ طحاوی کی روایت جہری نمازوں پر محمول ہے کیونکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سری نمازوں میں فاتحہ خلف الامام ثابت ہے جیسا کہ اس کی تفصیل پہلے نیز توضیح الکلام میں بھی بیان ہو چکی ہے۔ ۲۔ عبدالرزاق کی روایت میں احتمال ہے کہ اس سے مراد فاتحہ سے زائد قراء ت ہو، کیوں کہ نماز میں وہ صرف فاتحہ کو فرض قرار دیتے تھے۔ اس لیے کبھی زائد پڑھ لیتے جیسے ابن ماجہ وغیرہ کی روایت میں ہے ، کبھی نہ پڑھتے جیسے عبدالرزاق وغیرہ میں ہے۔ ڈیروی صاحب کا یہ فرمانا کہ’’ان روایات میں تعارض ہونے کی وجہ سے ابن ماجہ والی روایت غلط ہے‘‘ (ص ۶۵) نہ حنفی اصول کے مطابق ہے نہ ہی محدثین کے مطابق ہے بلکہ یہ خالص سینہ زوری ہے۔ آخر عبدالرزاق کی روایت میں خطا کیوں ممکن نہیں ہے؟ حنفی اصول تعارض میں نسخ اور بالآخر تساقط ہے۔ یہاں اس سے صرف نظر کیسے ؟ اور محدثین کے ہاں اولاً جمع و تطبیق ہے مگر ڈیروی صاحب اس کے برعکس اپنے اصول ’’وضع‘‘ کر رہے ہیں۔ ڈیروی صاحب کے شیخ تو فرماتے ہیں کہ ’’تطبیق کے لیے بسا اوقات محض فرضی باتیں بھی اختیار کی جاتی ہیں۔‘‘(احسن : ج ۲ ص ۱۰۷) مگر یہاں یہ ’’محض فرضی‘‘ نہیں بلکہ اس کا