کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 346
ذکر کیا ہے اور اپنے استاد امام حاکم رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے۔
حدیث صحیح لست اعرف لہ علۃ بوجہ وھو حدیث مسند فان الصحابی اذا قال کنا نفعل کذا وامرنا بکذا ونھینا عن کذا و کنا نتحدث فانی لا أعلم بین اھل النقل خلافا فیہ انہ مسند ۔(مختصر الخلافیات : ج ۲ ص ۱۱۲)
یہ حدیث صحیح ہے ، میں کسی اعتبار سے بھی اس میں کوئی کمزوری نہیں جانتا ۔ یہ حدیث مرفوع ہے کیونکہ صحابی جب یہ کہتا ہے ہم یوں کرتے تھے یا ہمیں اس طرح حکم دیا گیا ، یا اس سے ہمیں روکا گیا یا ہم یوں کہا کرتے تھے تو محدثین کے مابین اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ وہ روایت مرفوع ہے۔ گویا علامہ ابوالحسن سندھی نے جو فرمایا کہ یہ اثر حکماً مرفوع ہے۔ اما م حاکم رحمہ اللہ نے اس بارے میں وضاحت فرما دی ہے کہ یہ مرفوع کیونکر ہے۔
اس اثر پر مولانا صفدر صاحب کے وسواس کا ازالہ الله سبحانہ و تعالیٰ کی توفیق سے ہم توضیح الکلام جلد اول میں کر چکے ہیں۔ اب شاگرد رشید اس حوالے سے تو کوئی بات نہ کر سکے البتہ ان کی راگنی ان سے مختلف ہے۔
چنانچہ فرماتے ہیں کہ خلف الامام کے لفظ اس میں غلط فہمی پر مبنی ہیں (ایک نظر:۶۴) نیز ابن ماجہ والی روایت غلط ہے (ص ۶۵) یہ الفاظ یقینا غلط ہیں۔ یہ کتابت کی غلطی نظر آتی ہے ۔خلف الامام کے الفاظ ابن عبدالبر کے زمانہ میں نہ تھے۔ بعد میں اضافہ کیا گیا ہے(ص ۶۷)
اس اثر میں ’’خلف الامام‘‘ کا اضافہ کس نے کیا ؟ اس کی دلیل ڈیروی صاحب نے یہ دی کہ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ میں کسی صحابی کے بارے میں نہیں جانتا کہ اس سے صحیح سند کے ساتھ بغیر اختلاف کے اس طرح منقول ہو، جیسا کہ اہل کوفہ کا مذہب ہے۔ سوائے حضرت جابر رضی اللہ عنہ بن عبدالله اکیلے کے۔(التمہید: ج ۱۱ ص ۵۱، ایک نظر: ص ۶۷)
اس سے ڈیروی صاحب نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ’’خلف الاما م کے الفاظ اس زمانہ میں موجود ہی نہیں تھے۔ بعد میں اضافہ کیا گیا ہے ورنہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ بلااختلاف کے الفاظ