کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 345
عن السجود فی آخر النجم کہ عطاء بن یسار نے حضرت زید رضی اللہ عنہ سے سوال سورت النجم کے سجدہ کے بارے میں کیا تھا۔ گویا علامہ قسطلانی رحمہ اللہ نے بھی علامہ عینی رحمہ اللہ کی تائید کی ہے کہ سوال سورت النجم کے سجدہ کے بارے میں تھا(ارشاد الساری: ج ۲ ص ۲۳۴)
اس لیے ڈیروی صاحب جمع خاطر رکھیں امام بخاری رحمہ اللہ نے یہاں ایسا کوئی تصرف نہیں کیا ۔ انھوں نے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے قول کی بنا پر یہ غلط فہمی پیدا کرنے کی لا حاصل کوشش کی مگر دیکھا آپ نے کہ دیگر شارحین بخاری نے اس میں امام بخاری رحمہ اللہ کا دفاع کیا ہے اور اس فکر کو مردود قرار دیا جس کی ترجمانی ڈیروی صاحب کر رہے ہیں۔
پھر جب امام بخاری رحمہ اللہ جزء القراء ۃ میں حضرت زید رضی اللہ عنہ کا موقف ترک قراء ت بیان کرتے ہیں جیسا کہ خود مولانا صفدر صاحب نے بھی ان کے حوالے سے اس کا ذکر کیا ہے (احسن : ۱؍۳۰۴) تواس سے خوف زدہ ہونے اور اسے چھپانے کی انھیں ضرور ت ہی کیا رہ جاتی ہے ؟
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا اثر اور ڈیروی صاحب کے خدشات
امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے محمد بن یحییٰ ثنا سعید بن عامر ثنا شعبۃ عن مسعر عن یزید الفقیر کی سند سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ بن عبدالله سے نقل کیا ہے کہ کنا نقرأ فی الظھر والعصر خلف الامام فی الرکعتین الاولیین بفاتحۃ الکتاب وسورۃ وفی الاخریین بفاتحۃ الکتاب ہم ظہر وعصر کی نمازوں میں امام کے پیچھے پہلی دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ اور مزید کوئی سورت پڑھتے تھے اور آخری دو رکعتوں میں صرف فاتحہ پڑھتے تھے۔(ابن ماجہ:ص ۶۱)
یہی اثر امام بیہقی رحمہ اللہ نے کتاب القراء ۃ( ص ۶۷ )اور السنن الکبریٰ (ج ۲ ص ۱۷۰) میں اپنی سند سے محمد بن یحییٰ نا سعید بن عامر کی اسی سند سے ذکر کیا ہے۔ یہ اثر سند کے اعتبار سے صحیح ہے جیسا کہ علامہ بوصیری رحمہ اللہ نے فرمایا ہے بلکہ علامہ ابوالحسن رحمہ اللہ سندھی فرماتے ہیں یہ اثر حکماً مرفوع ہے۔امام بیہقی رحمہ اللہ نے یہی اثر معرفۃ السنن (ج ۲ ص ۵۶) اور الخلافیات میں بھی