کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 344
کی۔ اور امام بخاری رحمہ اللہ کا کیا داعیہ تھا کہ اپنی غرض کے لیے اس زیادت کو حذف کر دیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی طرف اس کا انتساب نہیں کیا جا سکتا وہ اس سے بری الذمہ ہیں۔‘‘
جس سے ہمارے موقف کی حرف بحرف تائید ہوتی ہے۔ یہی اسلوب امام بخاری رحمہ اللہ نے متعدد مقامات پر اختیا رکیا، جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے حوالے سے ہم نے ابھی ذکر کیا ہے۔ یہ اور مقدمہ فتح الباری میں ان کی اپنی وضاحت کے برعکس حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے جو کچھ یہاں فرمایا وہ درست نہیں۔
بلکہ علامہ عینی رحمہ اللہ نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ کہنا کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ کا قول امام بخاری رحمہ اللہ کے خلاف تھا اس لیے اسے انھوں نے حذف کر دیا ، مردود ہے کیونکہ یہ تو قراء ت خلف الامام کا محل ہی نہیں بلکہ یہاں مقصود تو سورت النجم میں سجدہ کے بارے میں ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس قسم کے الزام سے بری الذمہ ہیں۔
ثانیاً: سأل کا جواب کیا تھا ۔ فاتحہ خلف الامام یا سورت ا لنجم میں سجدہ، علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ والظاھر انہ ھو السجود فی النجم کہ ظاہر بات یہی ہے کہ جس چیز کا سوال کیا گیا وہ سورت النجم میں سجدہ کے بارے میں تھا جس کا جواب انھوں نے یہ دیا کہ میں نے یہ سورہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر تلاوت کی توآپ نے سجدہ نہیں کیا۔ نیز انھوں نے یہ بھی فرمایا کہ صحیح مسلم کی روایت کے مطابق تو سوال فاتحہ خلف الامام کا تھامگر اس کے ساتھ انھوں نے سجدۃ النجم کا بھی افادۃً ذکر کر دیا اور بخاری کی روایت میں اختصار ہے۔ یا سوال تو سجدۃ النجم کے بارے میں ہی تھا تواس کا انھوں نے جواب دیا وکلا الوجھین جائزان اور یہ دونوں صورتیں جائز ہیں۔ لہٰذا کسی اور تکلف کی ضرورت ہی نہیں۔ بلکہ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے سوال فاتحہ اور سجدۃ النجم دونوں کے بارے میں تھا مگر راوی نے اختصاراً ایک مسئلہ کے بارے میں سوال کا ذکر کیاورنہ جس کا سوال میں ذکر ہی نہ ہو ، اس کو بیان کرنا چہ معنی دارد؟ بالکل اسی طرح سلیمان رحمہ اللہ بن داؤد نے ایک سوال اوراس کے جواب کا ذکر کیا۔ اور اسی کو امام بخاری رحمہ اللہ نے جیسے سنا بیان کر دیا۔ اس لیے امام صاحب پر اعتراض بہر نوع غلط ہے۔ اسی طرح علامہ قسطلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: انہ سأل زید بن ثابت الانصاری رضی اللّٰه عنہ