کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 342
اما اقتصارہ علی بعض المتن ثم لایذکر الباقی فی موضع آخر فانہ لا یقع لہ ذلک فی الغالب الا حیث یکون المحذوف موقوفاً علی الصحابی وفیہ شیء و قد یحکم برفعہ فیقتصر علی الجملۃ التی یحکم لھا بالرفع و یحذف الباقی لانہ لا تعلق لہ بموضوع کتابہ ۔ (ھدی الساری ص ۱۶)
’’کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا بعض متن مختصر ذکر کرنا ،پھر باقی حصہ دوسری جگہ بھی ذکر نہ کرنا یہ اکثر وہاں ہوتا ہے جہاں موقوف صحابی محذوف ہو اور اس میں ایسا حصہ ہو جو حکماً مرفوع ہو تو اس مرفوع حصہ پر اکتفا کرتے ہیں اور باقی حصہ کو چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ اس کا موضوع کتاب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔‘‘یہاں بھی اگر امام بخاری رحمہ اللہ نے موقوف حصہ چھوڑ دیا ہے تو یہ ان کے اسلوب کے موافق ہے اور اس پر اعتراض بے خبری کا نتیجہ ہے۔
ڈیروی صاحب کا یہ کہنا کہ سأل کے بعد جو جواب تھااسے حذف کر دیا گیا ہے ۔ ان کے ہاں سأل کا جواب قراء ت خلف الامام کے بارے میں تھا جس کا جواب حضرت زید رضی اللہ عنہ نے یہ دیا کہ ’’ لا قـراء ۃ مع الامام فی شیء‘‘ کہ امام کے ساتھ کوئی قراء ت نہیں۔ جیسا کہ صحیح مسلم (ج۱ ص ۲۱۵) نسائی اور ابوعوانہ (ج ۲ ص ۲۰۷) میں ہے مگر یہ اعتراض دو وجوہ سے غلط ہے۔
اولاً: صحیح مسلم میں یہ روایت امام مسلم رحمہ اللہ نے یحییٰ بن یحییٰ و یحییٰ بن ایوب و قتیبہ بن سعید و علی رحمہ اللہ بن حجر سے لی ہے اور یہ سب اسماعیل رحمہ اللہ بن جعفر سے روایت کرتے ہیں۔ مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ روایت سلیمان بن داود ابوالربیع قال حدثنا اسماعیل سے بیان کی ہے اور سلیمان نے جس سیاق سے اسماعیل سے یہ روایت بیان کی اسی کو امام بخاری رحمہ اللہ نے بیان کر دیا۔ اور امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنے شیوخ سے انھوں نے اسماعیل رحمہ اللہ سے جس طرح روایت سنی اسے بیان کیا۔ اس میں امام بخاری رحمہ اللہ کو مورد الزام ٹھہرانا قرین انصاف نہیں۔
اسی نوعیت کی ایک مثال اور دیکھیے:
امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب العقیقہ میں باب باندھا ہے ۔ باب اماطۃ الاذی عن