کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 341
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ پر عبارتوں میں
رد وبدل اور حذف کرنے کا الزام
امام بخاری رحمہ اللہ نے الجامع الصحیح کے باب من قرأ السجدۃ و لم یسجد (ج ۱ ص ۱۴۶) میں سلیمان بن داؤد ابوالربیع قال حدثنا اسماعیل بن جعفر قال اخبرنا یزید بن خصیفۃ عن ابن قسیط عن عطاء بن یسار انہ اخبرہ أنہ سأل زید بن ثابت فزعم أنہ قرأ علی النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم ، الحدیث نقل کی ہے۔ جناب ڈیروی صاحب فرماتے ہیں :یہ’’ امام بخاری رحمہ اللہ کا کمال ‘‘ہے اور ’’ماشاء الله امام بخاری رحمہ اللہ اپنے مخالف عبارتوں کو حذ ف کرنے اور ردوبدل کرنے میں بہت ماہر ہیں۔ جزاہ الله خیرا، سأل کے بعد جو جواب تھااس کو حذف کرکے عبارت یوں بنا دی أنہ سأل زید بن ثابت فزعم حالانکہ اصل میں تھا وزعم واؤ عطف کے ساتھ، امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کو فزعم فاء کے ساتھ بنا دیا اور اس کا عطف سأل پر کر دیا جو معنی اور مفہوم کے لحاظ سے بالکل غلط ہے۔ محدث ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس عبارت کو یوں پیش کیا۔ سأل زید بن ثابت وزعم أنہ قرأ (ابن خزیمہ : ۱؍۲۸۹)ماشاء الله انھوں نے بھی سوال کے جواب کو حذف کر دیا۔ مزید تبصرہ کرنے سے ہم قاصر ہیں ۔ا س کو ہم قارئین پرچھوڑتے ہیں۔‘‘( ایک نظر: ص ۸۱،۸۲)
ڈیروی صاحب نے جو کچھ کہا اس سے ان کے دل کی بھڑاس نہیں نکلی۔ ہم تو یہی عرض کریں گے کہ کبرت کلمۃ تخرج من افواھھم وما تخفی صدورھم اکبر۔
امام بخاری رحمہ اللہ پر یہ اعتراض ان کے اسلوب کو پیش نظر نہ رکھنے اور روایات کے اختلاف کو ملحوظ نہ رکھنے کا نتیجہ ہے۔ یہ بات تو حدیث کا ابتدائی طالب علم بھی جانتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ روایات ذکر کرنے میں تقطیع و اختصار کے قائل ہیں اور روایت میں موقوف حصہ ہو تو اسے حذف بھی کر دیتے ہیں کیونکہ وہ حصہ نہ باب سے متعلق ہوتا ہے اور نہ ہی ان کی کتا ب کا یہ موضوع ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حقیقت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے: