کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 340
اس کے دائیں بائیں دوسرے حضرات اپنی اپنی نماز پڑھ رہے ہوں تو کیا اکیلا نمازی آواز پر زور د ے کر پڑھ سکتا ہے؟ اور کیا وہ ایسی صورت میں دوسروں کے لیے ایذا کا باعث نہیں بنے گا؟ ظاہر ہے کہ اکیلے کے لیے کو بھی یہ صورت درست نہیں اور مقتدی کے لیے تو بالاولیٰ یہ درست نہیں۔ اس لیے مقتدی کو زیادہ احتیاط کے طور پر اقرأ بھا فی نفسک کاحکم دیا جس کی ادنیٰ حد تصحیح الحروف ہے۔ اس سے مراد غوروتدبر نہیں۔
علاوہ ازیں اس اثر سے جو نتیجہ ڈیروی صاحب نے نکالا ۔ ان کے شیخ مکرم نے اس کے برعکس فرمایا کہ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ امام کے پیچھے جہری آواز سے پڑھتے تھے اور ان کے ایک اثر سے جس کے بارے میں امام دارقطنی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ھذا اسناد حسن و رجالہ ثقات کلھم اور امیر یمانی کے حوالے سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ امام کے پیچھے خوب زور و شور کے ساتھ ام القرآن کی قراء ت کرنی چاہیے اگرچہ کھلے طور پر منازعت اور مخالجت بھی ہوتی رہے۔‘‘ (احسن : ۲؍۴۶)حالانکہ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ امام کے پیچھے آہستہ پڑھتے تھے جہراً نہیں۔ امیر یمانی اور امام دارقطنی رحمہ اللہ کے اثر سے جو نتیجہ مولانا صفدر صاحب نے نکالا توضیح الکلام ( ج ۱،ص ۱۵۹،۱۶۰) میں ہم اس کی وضاحت اور ان کے وساوس کا ازالہ کر چکے ہیں۔ ہم یہاں صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ڈیروی صاحب نے جو کچھ فرمایا وہ ان کے شیخ مکرم کے موقف کے بھی خلاف ہے۔ مولانا صاحب نہ صرف یہ کہ ان آثار سے اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ فاتحہ خلف الامام کے قائل تھے بلکہ زور وشور سے پڑھنے کا اظہار کرتے ہیں۔بتلائیے ڈیروی صاحب اپنے دعویٰ میں کہاں تک سچے ہیں؟
اہل حدیث بحمدالله اتنی آواز سے فاتحہ خلف الامام پڑھنے کی قطعاًاجازت نہیں دیتے اور نہ ہی پڑھتے ہیں کہ پاس کھڑے دوسرے مقتدی کو تکلیف پہنچے ۔ یہ تو ڈیروی صاحب کی محض الزام تراشی ہے ۔ البتہ ان کے شیخ مکرم نے یہ بالکل ثابت کر دیا کہ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ امام کے پیچھے جہری آوازسے پڑھتے تھے۔‘‘ اب اس کا فیصلہ قارئین کرام کریں کہ دونوں میں سچا کون ہے ، استاد یا شاگرد؟ ع
دیکھے اسے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو