کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 34
قارئین حضرات !انصاف فرمائیں نواب صاحب تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس اثر کو ضعیف قرار دیتے ہیں مگر ان کے مجمل قول کی بنا پر (جوانھوں نے پہلے مذہب کے بیان میں لکھا) جناب ڈیروی صاحب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے صحیح اثر کا انکار کرتے ہیں۔ فَاِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔! بالکل یہی معاملہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی الدرایہ سے متعلق ہے۔ علامہ مرغینانی رحمہ اللہ نے دعویٰ کیا تھا کہ قراء ۃ خلف الامام نہ پڑھنے پر صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے۔ وعلیہ اجماع الصحابۃ اس حوالہ سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا اور حضرت سعد، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضر ت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور علی رضی اللہ عنہ سے روایات بھی ہیں۔‘‘ (الدرایہ : ج ۱ ص ۱۶۴) جس سے ڈیروی صاحب باور کرا رہے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تو سری میں بھی قراء ت کے قائل نہ تھے۔ حالانکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے جب ان آثار کی تخریج کی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اثر کے بارے میں وضاحت کر دی کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے۔ اور ابن حبان نے باطل قرار دیا ہے۔ لہٰذا جب خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ہی اس اثر کا قصہ تمام کر دیا تواس وضاحت کے باوجود ان کے مجمل قول سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے صحیح اثر کے انکار میں کونسی معقولیت رہ جاتی ہے۔؟ ساتواں دھوکا جناب ڈیروی صاحب مصنف عبدالرزاق کے حوالہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اثر نقل کرکے لکھتے ہیں: ’’ یہ عبدالله بن ابی لیلیٰ حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کا بھائی ہے ۔ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا شاگرد ہے ۔ اس کی روایت حضرت عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی ہے جس میں اس کا شاگرد قتادہ ہے۔ (المعجم الاوسط للطبرانی :ج ۳ ص ۲۹۷) اور مصنف عبدالرزاق میں اس کا شاگرد زبید بن حارث ثقہ ہے۔ کتاب المراسیل لابن ابی حاتم (ص ۱۰۸) میں ابن ابی لیلیٰ کی روایت حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے موجود ہے ۔ اس راوی کا مزید حال معلوم نہیں ہو سکا۔ (ایک نظر :ص ۹۰) اس عبارت سے ڈیروی صاحب کی بے خبری بلکہ دھوکا دہی مزید آشکارہ ہو جاتی ہے۔