کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 339
ذلک مشہورکہ فاتحہ خلف الامام کے بارے میں حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کا مسلک معروف ہے۔ اندازہ کیجیے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ تو ان آثار سے حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کا مسلک فاتحہ خلف الاما م بتلاتے ہیں بلکہ انہی دونوں آثار کو مولانا صفدر صاحب نے بھی احسن الکلام (ج ۲ ص ۱۴۲) میں نقل کیا اور پھر اس بات کا اعتراف کیا کہ ’’یہ بالکل صحیح بات ہے کہ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے۔ ‘‘مگر ان کے شاگرد رشید کی گنگا الٹی چلتی ہے۔ انصاف شرط ہے، امام بیہقی رحمہ اللہ اور مولانا صفدر صاحب کا موقف درست ہے یا ڈیروی صاحب کا ؟
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ اسی اثر میں مقتدی کو اقرأ فی نفسک اپنے ’’دل‘‘ میں پڑھنے کا حکم دیتے ہیں جس سے ڈیروی صاحب یہ نتیجہ کشید کرتے ہیں کہ یہ تو دل میں قراء ت ہے حالانکہ اس سے مراد زبان سے آہستہ پڑھنے کے ہیں اگرچہ اپنے کان نہ سنیں۔ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ معلوم ان القراءۃ فی النفس ما لم یحرک بھا اللسان فلیست بقراء ۃ یہ بات معلوم ہے کہ قراء ۃ فی النفس جب تک زبان کو حرکت نہ دی جائے قراء ت نہیں ہوتی (التمہید: ج ۱۱ ص ۴۶)۔ ڈیروی صاحب بتلائیں کہ کیا ادنیٰ قراء ۃ ’’ تصحیح الحروف‘‘ نہیں ؟ اور کیا جن چیزوں کا تعلق تکلم اور تلفظ سے ہے اور وہ مطلوب شرعی ہے کیا وہ بلاتکلم اورحروف کی ادائیگی کے ،محض تدبر اور ’’دل‘‘ میں تصور کرنے سے ادا ہو جاتا ہے؟ قطعاً نہیں ، مگر حنفی مقلدین محض ضد کے نتیجہ میں قراء ت فی النفس کا مفہوم غور و تدبر لیتے ہیں جس کی ضروری تفصیل توضیح الکلام (ج ۱ ص ۱۸۹) میں موجود ہے۔ لہٰذا جب ادنیٰ قراء ۃ تصحیح الحروف ہے تو مقتدی کو حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے اس کا حکم دیا ہے ۔ جب کہ منفرد کو اس طرح پڑھنے کا حکم فرماتے ہیں کہ اس کے کان قراء ت کو سنیں۔ اس لیے ڈیروی صاحب کا مقصد اس سے قطعاً پورا نہیں ہوتا۔
مزید غور فرمائیے کہ اس اثر میں ان کے یہ الفاظ و ان کنت وحدک فاسمع اذنیک ولا تؤذی من عن یمینک و من عن یسارک اگرتو اکیلا ہے تو اپنے کانوں کو سناؤ اور اپنے دائیں بائیں کھڑے ہونے والوں کو ایذا نہ دو۔ سوال یہ ہے کہ یہ آخری حکم صرف مقتدی کے لیے ہے یا اکیلے کے لیے بھی ؟ کیا اکیلا جب نماز پڑھ رہا ہو اور