کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 338
روایت کی بنیاد پر فاتحہ خلف الامام کے قائل ہیں تو اسے مقتدی کے لیے قرار نہ دینا قرین انصاف نہیں اور ائمہ مجتہدین کا اس سے استدلال اس پر مستزاد ہے، جیسا کہ توضیح الکلام جلد اول میں اس کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے۔ ڈیروی صاحب نے اپنے اس انوکھے اور نرالے موقف کے لیے جس روایت کا سہارا لیا اب ذرا اس کی حقیقت بھی معلوم کر لیجیے۔ چنانچہ کتاب القراء ۃ (ص ۷۶) کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’امام شعبہ رحمہ اللہ ، مسلم رحمہ اللہ ابوالنضر سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا : میں نے حملۃ رحمہ اللہ بن عبدالرحمن سے سنا وہ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے بیان کر رہے تھے کہ انھوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ نہ تو وہ رکوع پور اکر رہا تھا ، نہ سجدہ ۔ پس اس کے ہاتھ سے پکڑ کر فرمایا اس شخص اور اس جیسے شخصوں کی مشابہت نہ کرو ، بے شک فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ پس اگر تو امام کے پیچھے ہے تو اپنے دل میں پڑھ لو اور اگر اکیلا ہے تو اپنے کانوں کو سنا اور دائیں بائیں والے کو ایذا نہ پہنچا۔ یہی روایت ابن ابی شیبہ (ج ۱ ص ۲۸۹) میں مختصر طور پر بھی ہے۔ اس روایت کو(جس کا ترجمہ ہم نے ڈیروی صاحب کے الفاظ میں لکھا ہے) نقل کرنے کے بعد موصوف لکھتے ہیں: ثابت ہوا حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ اس روایت کو عام نہیں سمجھتے تھے۔ انھوں نے وضاحت کی کہ مقتدی دل میں پڑھے اور اکیلا صرف اپنے کانوں کو سنوائے ۔ زیادہ آواز پر زور دے کر نہ پڑھے کہ دائیں بائیں والے آدمی کو ایذا ہو۔ لیکن غیر مقلدین مقتدی ہونے کی حیثیت سے بھی اتنی آواز سے پڑھتے ہیں کہ دائیں بائیں والے کو ایذا ہوتی ہے۔ ملخصاً (ایک نظر: ص ۹۷،۹۸) عرض ہے کہ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کا یہ اثر امام بیہقی رحمہ اللہ نے کتاب القراء ۃ باب مایؤثر عن اصحاب النبی المصطفی صلی اللّٰه علیہ وسلم فی قراء تھم خلف الامام وامرھم بھا (ص ۶۳ ط ہند) میں ذکر کیا ہے اور یہی اثر السنن الکبریٰ (ج ۲ ص ۱۶۸) میں بھی فاتحہ خلف الامام پڑھنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اثر کے ضمن میں ذکر کیا ہے۔ اور لطف یہ کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے پہلے وہ اثر نقل کیا جو ہم پہلے التمہید ، السنن الکبریٰ اور کتاب القراء ۃ کے حوالے سے نقل کر آئے ہیں اور پھر یہ اثر نقل کیا ہے جسے ڈیروی صاحب نے اپنے مدعا کے لیے نقل کیا ہے اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے السنن میں اس کے بعد فرمایا ہے: ومذھب عبادۃ فی