کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 337
گویا حدیث لا صلاۃ الا بفاتحۃ الکتاب منفرد کے لیے ہے، مقتدی کے لیے نہیں۔ حالانکہ یہ بات قطعاً غلط اور سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: وقرأ عبـادۃ بن الصامت بعد النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم خلف الامام و تأول قول النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم لا صلاۃ الا بقراء ۃ فاتحۃ الکتاب۔ (جامع ترمذی : ۱/۲۵۷) ’’اور حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ امام کے پیچھے پڑھتے تھے اور انھوں نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے فرمان کہ نماز فاتحہ کے بغیر نہیں ہوتی ، کی یہی تاویل و تفسیر سمجھی ہے۔‘‘محمود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے سنا حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھتے تھے۔ میں نے کہا: کیا آپ امام کے پیچھے پڑھتے ہیں تو انھوں نے فرمایا لا صلاۃ الا بھاکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ (التمہید: ج ۱۱ ص ۳۹، السنن الکبریٰ ص ۱۶۸، کتاب القراء ۃ : ص ۶۳) غور فرمائیے! حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کا استدلال کس سے ہے ؟ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کے اسی مسلک کے بارے میں تو ڈیروی صاحب کے شیخ مکرم لکھتے ہیں:’’ یہ بالکل صحیح بات ہے کہ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ اما م کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے اور ان کی یہی تحقیق اور یہی مسلک و مذہب تھا۔‘‘ (احسن: ج۲ ص ۱۴۲) لہٰذا حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ حدیث لا صــــلاۃ الا بفاتحۃ الکتاب کو منفرد کے لیے سمجھتے تھے بالکل جھوٹا دعویٰ ہے۔ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ حدیث کے راوی ہیں ۔ انھوں نے اس سے مقتدی کے لیے فاتحہ پڑھنے پر استدلال کیا، جیسا کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے صراحت کی ہے۔ اور اسی روایت سے امام شافعی رحمہ اللہ اور امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ نے مقتدی کو اس کا مخاطب سمجھا۔ لہٰذا ڈیروی صاحب کا یہ کہنا کہ ’’حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کا جو صحیح ہے مقتدی سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ (ایک نظر: ص ۱۰۱) قطعاً صحیح نہیں۔ امام احمد وغیرہ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے اثر سے اس حدیث کو مقتدی کے لیے قرار نہیں دیا۔ ڈیروی صاحب اور دیگر ان کے ہم نوا اسی بنیاد پر مقتدی کو اس کا مخاطب نہیں سمجھتے۔ مگر انصاف شرط ہے۔ راوی حدیث کا اثر یہاں غیر معتبر کیوں ہے؟ جب وہ اس