کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 336
ہو تو خلاصۃً تمام کی طرف صحت کا انتساب کر دیتے ہیں۔ اورکبھی ضعیف کے مقابلہ میں بھی صحیح کہہ دیتے ہیں جیسا کہ باحوالہ پہلے گزر چکا ہے۔ علاوہ ازیں حنفی اصول میں تو مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے ما سکت عنہ ابوداود فھو صالح للاحتجاج بہ کہ جس سے امام ابو داؤد خاموشی اختیار کریں وہ استدلال کے لیے درست ہے(انہاء السکن: ص ۲۳) اور اعلاء السنن میں جا بجا امام ابو داؤد رحمہ اللہ کے سکوت کی بنا پر حدیث کو حسن قرار دیتے اور بعض سے صحت بھی نقل کرتے ہیں ۔ ملاحظہ ہو اعلاء السنن (ج ۱ ص ۳۱،۳۶، ج ۲ ص ۳۷ )وغیرہ۔ بلکہ وہ تو یہ بھی فرماتے ہیں کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ التلخیص میں کسی روایت پر سکوت کریں تو وہ بھی صحیح یا حسن ہوگی۔ جیسا کہ توضیح (ج۱ ص ۲۱۱) میں ہم ذکر کر چکے ۔ ملاحظہ ہو انہاء السکن (ص ۲۴) ،اعلاء السنن (ج۱ ص ۶۸،ج ۳ ص ۳۰) ، معارف السنن ( ج۱ ص ۱۶۸،۳۸۵،۴۸۲)۔ اندازہ کیجیے کہ یہ حنفی اکابر تو تلخیص میں حافظ کا سکوت حسن یا صحیح کے درجہ کا قرار دیں مگر ڈیروی صاحب التلخیص میں بیان کردہ تصحیح کو غلط اور ناقابل اعتبار قرار دیں ۔ بے انصافی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ انھیں پہلے اپنے اکابر سے نپٹنا چاہیے اور ان کی تغلیط کرنی چاہیے تھی کہ یہ آپ ہمارے لیے کیا اصول بیان کر رہے ہیں۔ سکوت ابو داؤد سے وہ استدلال درست قرار دیں ، اسے حسن سمجھیں مگر اسی بنا پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا قول ڈیروی صاحب کے ہاں غلط اور ناقابل اعتبار قرار پائے۔ ہماری اس وضاحت سے واضح ہو جاتا ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک ابن رحمہ اللہ اسحاق کی حدیث ’’ثابت‘‘ اور حسن ہے۔ اور التلخیص میں ان کی عبارت علی شرط التسلیم بھی بجا ہے۔ اس میں کوئی بے اصولی نہیں۔ اور یہ بھی فتح الباری کے موقف کے مطابق ہے۔ حضرت عبادۃ رضی اللہ عنہ کا مسلک ،ڈیروی صاحب کا انکشاف ڈیروی صاحب نے اس کتاب میں جو ش جذبات میں جہاں اور بہت سے حقائق کا انکار کیا وہاں ایک یہ انکشاف بھی فرمایا کہ ’’حضرت عبادۃ رضی اللہ عنہ اس حدیث کو منفرد کے حق میں سمجھتے تھے۔‘‘ (ایک نظر: ص ۹۷)