کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 335
کے نزدیک صحیح یا کم از کم حسن درجہ کی ہے۔ اور اسی سے ڈیروی صاحب کی اس طول بیانی کی بھی تردید ہو جاتی ہے کہ التلخیص الحبیر میں جو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ’’ وصححہ ابوداود[1] والترمذی والدارقطنی وابن حبان۔۔الخ‘‘ کہاہے ۔ التلخیص ابتدائی دور کی کتاب ہے۔ اس لیے یہ بات غلط ہے ، یہ قابل اعتماد نہیں، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا یہ لکھنا کافی حد تک غلط اور حقائق کے خلاف ہے (ایک نظر:ص ۱۰۸،۱۱۰) غلط کار کو دراصل ہر چیز غلط ہی نظر آتی ہے۔ بلاشبہ التلخیص ، الدرایہ اور فتح الباری سے پہلے کی کتاب ہے۔ مگر التلخیص ، میں خلاصہ کے طور پر جو انھوں نے فرمایا وہ غلط کیسے ہے ؟ امام ابوداو،د رحمہ اللہ کا سکوت یہ بات تو حدیث کا ادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے کہ امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے اس حدیث پر سکوت کیا ہے۔ کوئی جرح نہیں کی۔ اور خود امام صاحب رحمہ اللہ موصوف نے فرمایا ہے کہ جس پر میں سکوت کروں وہ ’’صالح‘‘ ہوتی ہے۔ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے النکت میں اس پر بحث کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’جن روایات کے بارے میں انھوں نے سکوت کیا ان میں کچھ وہ ہیں جو صحیحین میں ہیں یا صحیحین کی شرط پر ہیں یا حسن لذاتہ ہیں یا حسن لغیرہ اوروہ بھی ہیں جو ضعیف ہیں مگر اس کے راوی کے ضعف پر اجماع نہیں۔‘‘لہٰذا جب خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے سب راوی ثقہ اور یہ روایت حسن ہے اور امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اس پر سکوت اختیار کیا ہے تو خلاصہ کے طو رپر اگر انھوں نے وصححہ ابوداود کہا ہے تو یہ خلاف واقعہ کیسے اور غلط کیسے؟ رہا یہ سوال کہ یوں یہ حسن کیوں نہیں ،صحیح کیوں ہے ؟ ترمذی رحمہ اللہ اور حاکم رحمہ اللہ کی طرف تصحیح کی نسبت بھی صحیح نہیں تواس کا جواب ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ جب ایک روایت کو بعض نے صحیح اور بعض نے حسن کہا
[1] التلخیص کے مطبوعہ نسخہ کے مطابق ،ورنہ تحقیق مزید کی روشنی میں ہماری رائے اس کے برعکس ہے کہ ’’صححہ‘‘ میں ضمیر کا مرجع امام بخاری رحمہ اللہ کی طرف ہے جیسا کہ اس سے پہلے یہ بحث تفصیلاً گزر چکی ہے ۔