کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 334
مخالفت کرے اور فتح الباری( ج ۴ ص ۳۲) میں ہے کہ ابن رحمہ اللہ اسحاق حسن حدیث والا ہے مگر جب اس کی مخالفت کی جائے دوسرے راوی کی طرف سے تو پھر قابل حجت نہیں۔(ایک نظر: ص ۱۱۱)
مگر غور فرمائیے یہ دونوں عبارتیں ہمارے موقف کے خلاف نہیں۔ ابن رحمہ اللہ اسحاق کی روایت حسن ہے خواہ وہ منفرد ہی کیوں نہ ہو۔ البتہ اگر ثقات کے مخالف ہو تو حجت نہیں۔ یہی بات دوسرے مقامات پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کی ہے، جیسا کہ تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ اور یہ بات تو ایک حقیقت ہے کہ ابن رحمہ اللہ اسحاق اس میں منفرد بھی نہیں۔ اس لیے تفرد کی بنیاد پر اعتراض بھی محض بہانہ ہے۔ خود ابن حجر رحمہ اللہ نے الدرایہ میں اس کے راویوں کو ثقہ اور نتائج الافکار میں اس روایت کو حسن قرار دیا ہے اور نتائج الافکار میں اس بات کی بھی تصریح ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے یہ حصہ ۱۹صفر۸۳۹ھ میں املا کروایا تھا۔ گویا ان کا یہ فیصلہ بھی الدرایہ کی تکمیل کے بعد کا ہے، اور فتح الباری میں بھی اس کے ثبوت کا اظہار کیا ہے۔ ان کے الفاظ ہیں:
وقد ثبت الإذن بقراء ۃ المأموم الفاتحۃ فی الجھریۃ بغیر قید وذلک فیما اخرجہ البخاری فی جزء القراء ۃ والترمذی و ابن حبان وغیرھما من روایۃ مکحول عن محمود بن الربیع عن عبادۃ۔ (فتح الباری: ج ۲ ص۲۴۲)
اور مقتدی کو جہری نمازوں میں بلاقید فاتحہ پڑھنے کی اجازت ثابت ہے اور وہ ،وہ ہے جسے بخاری رحمہ اللہ نے جزء القراء ۃ میں اور ترمذی رحمہ اللہ ابن حبان رحمہ اللہ وغیرہما نے مکحول عن محمود عن عبادۃ سے روایت کیا ہے۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے یہاں اس روایت پر جرح کی بجائے اسے ’’ثابت‘‘ شدہ ایک حقیقت قرار دیا ہے اور یہ بات تو ہم توضیح (ج ۱ ص ۲۱۲،۳۳۸) میں حنفی اکابرین کے حوالہ سے نقل کرآئے ہیں کہ ان کے نزدیک یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ فتح الباری میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ جس روایت پر خاموشی اختیار کر یں وہ صحیح یا حسن ہے۔ مگر یہاں تو سکوت کیا اسے ’’ثابت‘‘ کہہ کر اس کے ثبوت کا اظہار کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ روایت ان