کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 332
علاؤ الدین نے غلطی سے ’’ عن ابی قتادۃ‘‘ کہا تو علامہ زیلعی رحمہ اللہ اور ان سے متاخرین نے اسی طرح ’’ عن ابی قتادۃ‘‘ ہی ذکر کرکے یوں اسے متصل بنا دیا حالانکہ یحییٰ اسے اپنے باپ عبدالله بن رحمہ اللہ ابی قتادۃ سے روایت کرتے ہیں اور ابن رحمہ اللہ ابی قتادۃ تابعی ہے۔ تو کیا اسے متصل بنانے میں ان سب حضرات نے دھوکا دیا ہے؟ لطف کی بات یہ کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے یہی روایت اتحاف المہرۃ (ج ۴ ص ۱۳۳) میں المستدرک کے حوالہ سے ’’ ثنا عبدالعزیز بن محمد الدراوردی عن یحي بن عبداللّٰه بن ابی قتادۃ عن أبیہ ‘‘کی سند سے نقل کی ہے۔ ’’ عن ابی قتادۃ‘‘ کا واسطہ یہاں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ذکر نہیں کیا۔ یہاں اس کے علاوہ بھی دلچسپ بحث ہے مگر اس کی یہاں ضرورت نہیں۔ اس قسم کے تسامحات یا مطبعی اغلاط کو دھوکا کا نام دینا بچگانہ حرکت ہے علم کی کوئی خدمت نہیں۔ دھوکا تو جا بجا ڈیروی صاحب دیتے ہیں ۔ اسی بحث میں دیکھیے کتنی دلیری سے لکھتے ہیں : ایک اور دھوکا کیا الدرایہ فتح الباری کے بعد کی تصنیف ہے؟ ’’الدرایہ فتح الباری سے بہت بعد کی تصنیف ہے تو الدرایہ میں لکھی ہوئی بات سے فتح الباری کی عبار ت کی وجہ سے رجوع کیسے ہو سکتا ہے غیر مقلدین کا ذہن الٹا ہے ۔(ایک نظر: ص ۱۱۱) اب کوئی ان سے پوچھے کہ شیخ الحدیث صاحب! آپ کا یہ دعویٰ کس دلیل پر مبنی ہے کہ الدرایہ ، فتح الباری سے بہت بعد کی تصنیف ہے؟ جب کہ امرو اقع یہ ہے کہ الدرایہ کے آخر میں لکھا ہے: قال مؤلفہ فرغت من تلخیصہ فی ذی القعدۃ ۸۲۷ھ سبع و عشرین وثمانمائۃ ۔(الدرایہ : ج ۲ ص ۲۹۸) کہ الدرایہ کے مؤلف (ابن حجر رحمہ اللہ ) نے کہا کہ میں اس کی تلخیص سے ماہ ذی القعدہ ۸۲۷ھ میں فارغ ہوا ،اور فتح الباری ہی کے آخر میں یہ صراحت ہے کہ اس کاجامع یعنی