کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 33
اس کی حدیث صحیح نہیں۔‘‘ قارئین کرام !اندازہ کیجیے کہ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کتنی وضاحت سے مقتدی کو سری نمازوں میں فاتحہ خلف الامام پڑھنے کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اثر صحیح و اثبت قرار دیتے ہیں اوراس کے برعکس اہل کوفہ کے مسلک کے مطابق سری میں بھی ممانعت کے اثر کو ضعیف و باطل اور منقطع ٹھہراتے ہیں۔ مگر دیکھا آپ نے کہ اس کے باوجود یہ حضرات ان سے کیا نقل کرتے ہیں، اور اس اثر کو ضعیف قرار دیتے ہیں جسے وہ اثبت فرما رہے ہیں۔ ع خدا دے تو دے لیکن الٹی سمجھ کسی کو نہ دے بالکل یہی حقیقت’’ہدیۃ السائل‘‘ کے حوالے سے نواب صدیق حسن مرحوم کے کلام کی ہے۔ ان سے دریافت کیا گیا کہ مقتدی فاتحہ کے علاوہ بھی کچھ پڑھ سکتا ہے یا نہیں ؟تو انھوں نے ابو داؤد اور دارقطنی کے حوالے سے حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ بن صامت کی حدیث نقل کرتے ہوئے فرمایا :کہ یہ حدیث جہری نمازوں میں فاتحہ سے زائد پڑھنے سے مانع ہے ۔ پھر انھوں نے امام احمد رحمہ اللہ کا اس سلسلے میں قول اور آیت ﴿ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا﴾ نیز صحابہ رضی اللہ عنہم کے اس بارے میں اقوال ذکر کیے ہیں اوراسی ضمن میں فرمایا کہ وھوقول علی و ابن مسعودکہ یہی قول حضر ت علی رضی اللہ عنہ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ہے۔ پھر صحابہ و تابعین کے آثار کے بارے میں فرمایا ہے کہ مرفوع روایت کی بنا پر فاتحہ کا حکم ان آثار سے خارج ہے۔ کیونکہ ان میں مطلقاً قراء ت کے بارے میں حکم ہے، ’’تصریح بفاتحۃ نیامدہ ‘‘فاتحہ کی ان میں تصریح نہیں نیز فرمایا کہ بعض آثار مرجوح و ضعیف ہیں اور ان مرجوح آثار میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اثر بھی ہے ۔ چنانچہ ان کے الفاظ ہیں: و بعض این آثار واقوال مرجوح ومحجوج است مثل قول علی رضی الله عنہ۔ (ہدیۃ السائل :ص ۱۹۴) اس کے بعدانھوں نے علامہ ابن ہمام کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان کہ جو خلف الامام پڑھتا ہے وہ فطرت انسانی پر نہیں ۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے اور ابن حبان نے بھی اسے باطل قرار دیا ہے۔ ملخصاً۔