کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 328
کہ ہم نے ان ---عبدالکریم ابوتمام--- سے امام بخاری رحمہ اللہ کی تصنیف کتاب القراء ۃ خلف الامام کا سماع کیا ہے۔ عبدالکریم کے بھائی کا نام عبدالصمد بن علی اور کنیت ابو الغنائم ہے۔ وہ بھی امام الملاحمی رحمہ اللہ سے اس کتاب کے راوی ہیں اور انہی کے واسطہ سے اس کتاب کی سند حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تک پہنچی اور انھوں نے اس کی روایات ذکر کی ہیں۔ ملاحظہ ہو نتائج الافکار (ج ۲ ص ۱۸) اور فتح الباری (ج ۲ ص ۱۱۹،۲۲۷،8۲۲،۲۲۹،۲۴۲،۲۴۵،۲۶۹) وغیرہ، اسی طرح موافقۃ الخبرالخبر(ج ۱ ص ۴۱۷،۴۲۱) علامہ ابن جوزی نے بھی اسی عبدالصمد ابوالغنائم کے واسطہ سے جزء القراء ۃ سے روایت لی ہے۔ ملاحظہ ہو التحقیق (ج ۱ ص ۳۶۷ ) نیز اس کے ساتھ تنقیح احادیث التعلیق لابن عبدالہادی (ج ۱ ص ۳۷۸) و تنقیح التحقیق للذہبی (ج ۱ ص ۱۵۵) بھی ملاحظہ فرمالیں۔
علامہ زیلعی رحمہ اللہ نے تو اسی جزء القراء ۃ کی اہمیت کی بنا پر نصب الرایہ (ج ۲، ص ۱۹، ۲۰، ۲۱) میں اس کی تلخیص پیش کر دی مگر پندرہویں صدی کے شیخ الحدیث صاحب اسے امام بخاری رحمہ اللہ کا رسالہ تسلیم کرنے میں ہی مترد ہیں۔ سبحان اللہ ! علامہ عینی بھی اسے امام بخاری رحمہ اللہ کی کتاب قرار دیتے ہیں۔ عمدۃ القاری (ج ۶ ص ۱۴) علامہ المزی نے تہذیب الکمال کے مقدمہ (ج ۱ ص ۲۶) میں اسے امام بخاری رحمہ اللہ کی کتاب قرار دیا اور جا بجا اس کی روایات کو بھی ذکر کیا۔ امام ابن عدی رحمہ اللہ (المتوفی ۳۶۵ھ) نے الکامل (ج ۴ ص ۱۴۳۷) میں امام بخاری رحمہ اللہ کی سند سے حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ الخدری کا اثر نقل کیا ہے کہ ان سے قراء ت خلف الامام کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا: ہاں سورہ فاتحہ پڑھی جائے۔ جسے جزء القراء ۃ (ص ۸) میں دیکھا جا سکتا ہے۔ محمود رحمہ اللہ بن اسحاق ۳۳۲ ھ میں فوت ہوئے۔ جبکہ امام ابن عدی ۲۷۷ھ میں پیدا ہوئے۔ جس سے بظاہر یہی ثابت ہوتا ہے کہ امام ابن عدی رحمہ اللہ نے بخاری کے جز ء القراء ۃ کا سماع بواسطہ محمود بن اسحاق ہی کیا ہے۔ امام ابن عدی اور الملاحمی کے علاوہ حافظ ابوالعباس رحمہ اللہ احمد بن محمد بن الحسین بھی محمود رحمہ اللہ کے شاگرد رشید ہیں جیسا کہ التذکرہ (ج ۳ ص ۱۰۷۹) اور الارشاد للخلیلی (ج ۳ ص ۹۷۴) میں مذکور ہے۔ اس لیے محمود رحمہ اللہ بن اسحاق کو مجہول کہنا بہر نوع غلط ہے۔ امام ابن عدی رحمہ اللہ ، امام بیہقی رحمہ اللہ اور دیگر تمام