کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 327
کوئی بھی ان کا ہم نوا نہیں ۔ سبھی حضرات اسے بالجزم امام بخاری رحمہ اللہ کی تصنیف قرار دیتے ہیں۔ امام بیہقی رحمہ اللہ المتوفی (۴۵۸ھ) صاف صاف لکھتے ہیں:
وقرأت فی کتاب القراء ۃ خلف الامام تصنیف البخاری۔ (کتاب القراء ۃ: ص ۶۹)
’’ کہ میں نے کتاب القراء ت خلف الامام جو امام بخاری رحمہ اللہ کی تصنیف ہے، میں پڑھا ہے۔‘‘ ایک جگہ لکھتے ہیں:
وقال البخاری فی کتاب القراء ۃ خلف الامام ‘‘ (کتاب القراء ۃ: ص ۱۱)
کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب القراء ۃ خلف الامام میں فرمایا ہے اور یہی بات انھوں نے بتکرار کہی ہے۔ ملاحظہ ہو (ص ۳۷،۴۴،۴۹،۵۴،۶۲) وغیرہ۔
امام بیہقی رحمہ اللہ سے پہلے محمود رحمہ اللہ بن اسحاق سے یہ کتاب روایت کرنے والے امام محمد رحمہ اللہ بن احمد بن محمد الملاحمی (متوفی ۳۹۵ھ) کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
حدث بنیسابور و بغداد بکتاب رفع الیدین والقراء ۃ خلف الامام عن محمود بن اسحاق۔ (السیر : ج ۱۷ ص ۸۶،۸۷)
کہ امام محدث رحمہ اللہ الملاحمی نے نیسابور اور بغداد میں محمود بن اسحاق سے کتاب القراء ۃ اور کتاب رفع الیدین کا درس دیا ۔ یہی کچھ انھوں نے تاریخ اسلام میں ۳۹۵ھ کے ایام میں ص ۳۱۹ میں ذکر کیا ہے بلکہ ان سے قبل خطیب نے یہی کچھ تاریخ بغداد (ج ۱ ص ۳۵۰) میں اور علامہ السمعانی نے الانساب (ج ۵ ص ۴۳۲ ) میں نقل کی ہے۔غور فرمائیے امام ملاحمی رحمہ اللہ ان دونوں کا درس بغداد اور نیساپور میں دیتے تھے۔ کوئی نہیں کہتا کہ یہ تو ان کی کتابیں ہی نہیں۔ البتہ ڈیروی صاحب کو یہ شرف حاصل ہے کہ فرماتے ہیں کہ یہ امام بخاری رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہیں۔
امام ملاحمی رحمہ اللہ سے اس کتاب کا سماع اور روایت کرنے والوں میں عبدالکریم بن علی ابوتمام الہاشمی ہیں جو خطیب رحمہ اللہ بغدادی کے استاد ہیں۔ خطیب فرماتے ہیں:
سمعنا منہ کتاب القراء ۃ خلف الامام تصنیف البخاری. (تاریخ بغداد ج ۱۱ ص ۸۰)