کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 326
بخاری رحمہ اللہ نے اس سے احتجاج کیا ہے امام ابن قیم رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے جو سمجھا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے تو ان کا یہ قول مبنی بر حقیقت ہے جس کا انکار محض مجادلہ ہے۔
ڈیروی صاحب کی آخری شاطرانہ حرکت
آخر میں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ ڈیروی صاحب نے محدث مبارک پوری رحمہ اللہ کی ابکار المنن (ص ۱۴۲) سے نقل کیا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جزء القراء ۃ میں صراحۃً نہیں فرمایا کہ حضرت عبادۃ رضی اللہ عنہ کی حدیث صحیح ہے۔(ایک نظر : ص ۱۰۸)
حالانکہ محدث مبارک پوری نے اگر یہ فرمایا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صراحۃ اس کو صحیح نہیں کہا لیکن اس کے معاً بعد یہ بھی فرمایا ہے کہ:
لکن لا شک فی ان صنیعہ فیہ یدل دلالۃ واضحۃ علی انہ صحیح عندہ ۔الخ (ابکار المنن: ص ۱۴۲)
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا اسلوب واضح طور پر دلالت کرتا ہے کہ یہ حدیث ان کے نزدیک صحیح ہے۔ جس سے یہ حقیقت بھی آشکارہ ہو جاتی ہے کہ ڈیروی صاحب نے اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے کس قدر شاطرانہ طریقہ اختیار کیا ۔ جس حقیقت کا اظہار انھوں نے ’’ لاشک‘‘ کے الفاظ سے کیا ہے اس کے برعکس یہ تاثر دینا کہ محدث مبارک پوری تو امام بخاری رحمہ اللہ کی تصحیح کا انکار کرتے ہیں۔ کس قدر دھوکا اور عیاری ہے اور اسی ادھوری عبارت سے راقم عاجز کی تردید کرنا بھی سراسر دھوکا اور غلط بیانی کا نتیجہ ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی جزء القراء ۃ اور محمود رحمہ اللہ بن اسحاق الخزاعی
جناب ڈیروی صاحب کی جزء القراء ۃ کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ رسالہ ان کی طرف منسوب ہے (ایک نظر ص ۷۲)، اسی طرح ص ۲۶۷ میں بھی لکھتے ہیں:’’جزء القراء ۃ ان کی طرف منسوب ہے۔‘‘ جس سے وہ یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ ’’جزء القراء ۃ ‘‘ امام بخاری رحمہ اللہ کی تصنیف نہیں۔ یہ بس ان کی طرف منسوب ہے۔
لیجیے ! یہ نادر تحقیق بھی ڈیروی صاحب کے حصے میں آئی ، جس کا متقدمین میں سے