کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 325
علامہ کشمیری رحمہ اللہ کے الفاظ اور ان کی حقیقت قارئین کے سامنے ہے۔اب دیکھیے کہ ان کے شاگرد رشید ان کے اس موقف کی ترجمانی کن الفاظ سے کرتے ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں: قال الشیخ وھو غیر صحیح فانہ لم یصححہ صراحۃ وانما أخرجہ فیہ فقط ، بل تردد فی صحتہ۔ (معارف السنن : ج ۳ ص ۱۹۹) کہ شیخ کشمیری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ کہنا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے ، صحیح نہیں، امام بخاری رحمہ اللہ نے صراحۃً اسے صحیح نہیں کہا ۔ اس کی صرف جزء القراء ۃ میں تخریج کی ہے بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ اس کی صحت میں متردد ہیں۔ لیجیے جناب ! حدیث عبادۃ رضی اللہ عنہ کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ سے یہ ذکر کرنا کہ انھوں نے تو اسے ضعیف کہا ہے۔ اس غبارے سے علامہ بنوری رحمہ اللہ نے یہ کہہ کر ہوا نکال دی کہ وہ اس حدیث کو صحیح کہنے میں متردد ہیں۔ اگر یہ روایت امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک ضعیف ہی ہے تواس کے صحیح ہونے میں تردد چہ معنی دارد؟ مزید برآں غور فرمائیے کہ علامہ کشمیری صرف صیغہ تمریض کی بنا پر سمجھتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کو معلول قرار دیا ہے۔ فلو ثبت الخبران کلاھما میں دونوں کا ضعیف ہونا مراد ہوتا(جیسا کہ ڈیروی صاحب کہہ رہے ہیں) تو وہ صیغہ تمریض کا سہارا نہ لیتے جس سے ہمارے موقف کی تائید ہوتی کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہاں اس عبارت میں ضعف کا اشارہ نہیں کیا بلکہ من کان لہ امام الحدیث ،کو جسے انھوں نے بالصراحت مرسل و منطقع قرار دیا ہے، بصورت تسلیم اس کی حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عمرو رضی اللہ عنہ کی حدیث سے تطبیق مقصود ہے۔ غور فرمائیے ! امام بخاری رحمہ اللہ زہری کی روایت کے بالتبع مکحول وغیرہ کی روایت کو قرار دیتے اور لا صلاۃ الا بفاتحۃ الکتاب کا جملہ تو دونوں میں مشترک سمجھتے ہیں اور اسی روایت سے امام بخاری رحمہ اللہ نے الجامع الصحیح میں قراء ت خلف الامام پر استدلال کیا ہے اور یہ من کان لہ امام الحدیث کے منافی ہے۔ بایں صورت لوثبت الخبران کی بنا پر کیا ، یہ سمجھا جائے کہ یہ روایت ہی ضعیف ہے؟ کلا ثم کلا ۔ ہماری ان گزارشات سے واضح ہو جاتا ہے کہ علامہ ابن الملقن نے جو فرمایا کہ امام