کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 324
سند کے کسی راوی پر ان کی جرح بھی ثابت نہیں۔ اس لیے یہاں لوثبت الخبران میں حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عبدالله بن عمرو رضی اللہ عنہ کی روایت کے ثبوت کی نفی مقصود نہیں۔ بلکہ من کان لہ امام کی مرسل ومنقطع روایت کو علی وجہ التسلیم ، دونوں کے مابین تطبیق کا اظہار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ کشمیری رحمہ اللہ نے بھی اسی جملہ سے ان کا ضعیف ہونا مراد نہیں لیا۔ بلکہ صرف صیغہ تمریض سے انھیں ذکر کرنے کی بنا پر سمجھا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کو معلول قرار دیا ہے۔ چنانچہ ان کے الفاظ ہیں: فذکرھما بصیغۃ التمریض وجعلھما علی حد سواء بخلاف البیہقی فانہ لعلہ اعل حدیث عبداللّٰه بن عمرو وصحح حدیث عبادۃ۔ (فصل الخطاب مع کتاب المستطاب : ص ۲۹۶) کہ بخاری رحمہ اللہ نے ان دونوں کو صیغہ تمریض سے ذکر کیا اور ان دونوں کو ایک ہی درجہ میں رکھا ۔ اس کے برعکس امام بیہقی رحمہ اللہ نے شاید عبدالله بن عمرو رضی اللہ عنہ کی حدیث کو معلول اور عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ حالانکہ علامہ کشمیری رحمہ اللہ خوب جانتے ہیں کہ صیغہ تمریض ہمیشہ بیان ضعف کے لیے نہیں ہوتا۔ محدث روپڑی نے قسطلانی ، مقدمہ فتح الباری اور ابن الصلاح کے حوالے سے اس کی وضاحت کر دی ہے بلکہ فرمایا ہے کہ یہ کہناکہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے حضرت عبدالله بن عمرو کی حدیث کو معلول قرار دیا ہے۔ ھذا افتراء منک ولم یعلہ من شاء راجع کتاب القراء ۃ یہ کشمیری صاحب کا افترا ہے، امام بیہقی رحمہ اللہ نے اسے معلول قرار نہیں دیا ۔ جو چاہے کتاب القراء ۃ کی مراجعت کرلے۔ بلاشبہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اسی کو معلول قرار نہیں دیا ۔ چنانچہ کتاب القراء ۃص ۵۳ ،۵۴ میں پہلے اپنی سند سے یہ روایت نقل کی اور آخر میں یہ بھی فرمایا کہ رواہ البخاری فی کتاب القراء ۃ خلف الامام عن شجاع بن الولید عن النضر کہ امام بخاری رحمہ اللّٰه نے یہی روایت شجاع بن الولید عن النضر ‘‘ کی سند سے ذکر کی ہے اور امام بیہقی رحمہ اللہ کی سند میں عباس بن عبدالعظیم شجاع کا متابع ہے اور عباس بھی ثقہ حافظ ہیں(تقریب : ص ۲۵۴) اس لیے امام بیہقی نے قطعاً اسے معلول نہیں کہا۔