کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 322
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھائی ۔ ایک نے آپ کے پیچھے پڑھا تو آپ نے فرمایا جب امام پڑھ رہا ہو تو فاتحہ کے علاوہ اور کچھ نہ پڑھو۔ اگر یہ دونوں حدیثیں ثابت ہیں تو یہ (یعنی فاتحہ) پہلی سے مستثنیٰ ہوگی۔ آپ کے اس قول کی بنا پر کہ فاتحہ کے بغیر نہ پڑھو۔ اور من کان لہ امام ایک جملہ ہے اور الا بام القرآن اس جملہ سے مستثنیٰ ہے۔‘‘ جس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے من کان لہ امام فقراء ۃ الامام لہ قراء ۃ کو مرسل اور منقطع قرار دینے کے ساتھ ساتھ عبادہ بن صامت اور عبدالله بن عمرو کی حدیث کو اس کے منافی قرار دے کر علی وجہ التسلیم دونوں کے مابین تطبیق دی ہے۔ جس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ اور عبدالله بن عمرو رضی اللہ عنہ کی حدیث سے اس کے مقابلے میں استدلال کیا ہے اور غالباً اسی بنا پر علامہ ابن الملقن رحمہ اللہ نے فرمایا ہے : محتجا بہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث عبادہ رضی اللہ عنہ سے استدلال کیا ہے۔ رہی یہ بات کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تو انھیں ’’ ذکر‘‘ صیغہ تمریض سے ذکر کیا ہے اور حدیث من کان لہ امام کے ساتھ ساتھ ’’ فلو ثبت الخبران‘‘ فرمایا کہ ’’اگر یہ دونوں ثابت ہوں ‘‘ جس میں ان کے ثبوت اور صحت کی نفی لازم آتی ہے مگر یہ اعتراض صحیح نہیں ۔ اہل علم خوب جانتے ہیں کہ صیغہ تمریض سے ہمیشہ ضعیف حدیث مراد نہیں ہوتی جیسا کہ حافظ ابن الصلاح نے اپنے مقدمہ میں اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مقدمہ فتح الباری کی الفصل الرابع میں وضاحت کی ہے۔اور فلو ثبت الخبران کو حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عبدالله رضی اللہ عنہ بن عمرو کی حدیث کا عدم ثبوت مستلزم نہیں بلکہ اس میں تو ’’ من کان لہ امام ‘‘کو علی وجہ التسلیم جسے وہ مرسل و منقطع قرار دے چکے ہیں، قبول کرکے دونوں کے مابین تطبیق دیتے ہیں ورنہ دونوں کے ضعیف ہونے کی بنا پر تو تطبیق کی ضرورت ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ زیلعی رحمہ اللہ نے جزء القراء ۃ کی تلخیص میں ولو ثبت ہی نقل کیا کہ اگر من کان لہ امام الحدیث ثابت ہو تو فاتحہ اس سے مستثنیٰ ہوگی (نصب الرایہ : ج ۲ ص ۲۰) حضرت عبدالله رضی اللہ عنہ بن عمرو کی حدیث امام صاحب نے جزء القراء ۃ (ص ۸) میں بالاسناد ذکر کی ہے اور اس کے سب راوی ثقہ وصدوق ہیں۔چنانچہ اس کی سند حسب ذیل ہے: