کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 321
المذکورۃ فیہ ھی المسئلۃ المذکورۃ بجملۃ فانہ لا صلاۃ لمن لم یقرأ بھا فی حدیث محمد بن اسحاق فھما واحد و ان صدرا مرتین فافھمہ۔ (فصل الخطاب : ص ۲۹۱)
کہ زہری رحمہ اللہ کی حدیث اگرچہ علیحدہ مستقل طور پر روایت ہوئی ہے لیکن اس میں وہی مسئلہ مذکور ہے جو ابن اسحق کی حدیث میں مذکور ہے کہ فاتحہ کے بغیر نما ز نہیں ہوتی۔ تو یہ دونوں ایک حدیث ہے اگرچہ دوبار واقع ہوئی ہیں ۔ اس لیے خوب سمجھ لیجیے۔
یہی بات امام ابن حبان رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہی ہے۔ لہٰذا جب امام بخاری رحمہ اللہ دونوں کا ماٰل اور نتیجہ ایک ہی ذکر کرتے ہیں اور مکحول رحمہ اللہ وغیرہ کی روایت کو امام زہری رحمہ اللہ کی روایت کے بالتبع بتلاتے ہیں۔ یعنی مکحول رحمہ اللہ وغیرہ کی روایت میں لا صلاۃ کی زیادتی اسی طرح ہے جیسے زہری رحمہ اللہ کی روایت میں مستقل طور پر ہے۔ یوں امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے زہری رحمہ اللہ کی روایت کے بالتبع کہہ کر تسلیم کیا ہے اور اسی بنا پر حافظ ابن قیم رحمہ اللہ وغیرہ نے کہا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا اور اس سے احتجاج کیا ہے۔ محدث روپڑی رحمہ اللہ نے الکتاب المستطاب میں اس پر مختصراً بڑی نفیس بحث کی ہے اور اسی حوالے سے علامہ کشمیری رحمہ اللہ کے مزید وساوس کا ازالہ بڑی متانت سے کیا ہے ۔ وللہ درہ۔ علاوہ ازیں امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’وجوب القـــراء ۃ للامام والماموم ‘‘ میں ’’ من کان لہ امام فقراء ۃ الامام لہ قراء ۃ‘‘کو مرسل اور منقطع قرار دینے کے بعد فرمایا ہے:
وذکر عن عبـادۃ بن الصامت و عبد اللّٰه بن عمرو صلی النبی صلي اللّٰه عليه وسلم صــلاۃ الفجرفقرأ رجل خلفہ فقال لا یقرأ ن احدکم والمام یقرأ الا بام القراٰن فلو ثبت الخبران کلاھما لکان ھذا مستثنی من الاول لقولہ لا یقرأن الا بام القراٰن ، وقولہ من کان لہ امام فقراء ۃ الامام لہ قراء ۃ جملۃ وقولہ إلا بأم القراٰن مستثنی من الجملۃ ۔ (جزء القراء ۃ ص ۵)
کہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ اور عبدالله بن عمرو رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ذکر کیا گیا ہے کہ