کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 32
خلف الامام فقد أخطأ الفطرۃ قال ابوعمر ھذا الخبر لو صح کان معناہ من قرأ مع الامام فیما جھر فیہ بالقراء ۃ فقد أخطأ الفطرۃ لأنہ حینئذ خالف الکتاب والسنۃ فکیف وھو خبر غیر صحیح لان المختار و أباہ مجھولان و قد عارض ھذا الخبر عن علی، ھو أثبت منہ و ھو خبر الزھری عن عبیداللّٰه بن أبی رافع عن علی و قد ذکرناہ فی ھذا الباب۔(التمہید: ج ۱۱ ص ۴۹ ،۵۰) ’’جنھوں نے تر ک قراء ۃ خلف الامام میں اہل کوفہ کا مذہب اختیار کیا ہے انھوں نے اس سے بھی استدلال کیا ہے جسے وکیع روایت کرتے ہیں ۔ علی بن صالح عن الاصبہانی عن المختار عن ابیہ عن علی سے کہ جس نے امام کے پیچھے قراء ت کی اس نے فطرت کی مخالفت کی۔ ابو عمر رحمہ اللہ (ابن عبدالبر رحمہ اللہ ) کہتے ہیں: کہ یہ روایت اگر صحیح ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ جس نے جہری نماز وں میں امام کے ساتھ پڑھا اس نے فطرت کی مخالفت کی ، کیونکہ اس صورت میں وہ کتاب و سنت کے خلاف کرتا ہے اور یہ تو خبر ہی صحیح نہیں کیونکہ مختار اور اس کا باپ دونوں مجہول ہیں۔ اور اس سے اثبت روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس کے معارض ہے۔ اور وہ روایت زہری عن عبیدالله بن ابی رافع عن علی سے ہے اوراس کا ذکر ہم نے اس باب میں کیا ہے۔‘‘ اور اسی طرح اہل کوفہ کے موقف پر بعض دیگر آثار ذکر کر نے کے بعد پھر لکھتے ہیں: ’’ وکذلک کل ما روی عن علی فی ھذا الباب فمنقطع لا یثبت ولیس عنہ فیہ حدیث متصل غیر حدیث عبداللّٰه بن ابی لیلٰی و ھو مجھول وزعم بعضھم انہ اخوعبدالرحمن بن ابی لیلٰی و لا یصح حدیثہ‘‘ (التمہید : ج ۱۱ ص ۵۱) ’’اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس باب میں جو کچھ مروی ہے وہ منقطع ہے ، ثابت نہیں۔ ان سے متصل سند کے ساتھ عبدالله بن ابی لیلیٰ کی حدیث کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں اور عبدالله بن ابی لیلیٰ مجہول ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ وہ عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کا بھائی ہے اور