کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 319
الاوطار سے ہوں تو اس سے پہلے اس امرکی بھی وضاحب ہو جاتی ہے کہ نیل کے مطبوعہ نسخہ سے یہ الفاظ ساقط ہو گئے ہیں، جیسا کہ ابھی ہم نے اشارہ کیا اور نیل ہی کی عبارت عون المعبود میں نقل ہوئی جو ڈیروی صاحب کی بے خبری کی بنا پر برہمی کا باعث بنی۔ مسک الختام ،التلخیص کی طباعت سے پہلے ۱۳۰۶ھ میں طبع ہوئی۔ اسی طرح نواب صاحب نے ہدیۃ السائل (ص ۱۹۰) میں بھی تصحیح کی نسبت امام بخاری رحمہ اللہ کی طرف کی، اور ہدیۃ السائل ۱۲۹۲ھ میں طبع ہوئی۔ اسی طرح اس سے قبل مولانا عبدالصمد رحمہ اللہ نے اعلام الاعلام فی قراء ۃ الفاتحۃ خلف الامام (ص ۱۹۰ ومجموعہ رسائل) مطبوعہ ۱۲۹۱ھ میں بھی تصحیح کی نسبت امام بخاری رحمہ اللہ کی طرف کی ہے۔ یہی نہیں بلکہ مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ مرحوم نے بھی التلخیص کے مطبوعہ نسخہ سے یہی سمجھا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی تصحیح کی ہے۔ چنانچہ ان کے الفاظ ہیں: ثم ان الحافظ فی التلخیص ص ۸۷ عزا الی البخاری تصحیحہ فی جزء القراء ۃ حیث قال : والبخاری فی جزء القراء ۃ وصححہ (معارف السنن : ج ۳ ص ۱۹۸) غورفرمائیے یہاں ’’وصححہ‘‘ سے وہ یہی سمجھ رہے ہیں کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کی طرف تصحیح کی نسبت کی ہے۔یہاں یہ بات بھی باعث عبرت ہے کہ علامہ بنوری رحمہ اللہ کے شیخ محترم علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے فرمایا تھا کہ حکی بعض المستروحین فی النقل کشارح المنتقی وکأنہ فھمہ من التلخیص ان البخاری صحح ھذا الحدیث ۔ (فصل الخطاب مع الکتاب المستطاب : ص ۲۹۲) کہ نقل کرنے والے بعض آرام پسندوں نے جیسے المنتقی کے شارح (علامہ شوکانی ) ہیں نے گویا التلخیص سے سمجھا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ راحت پسندی کا طعنہ تو انھوں نے اپنے روایتی انداز سے علامہ شوکانی رحمہ اللہ کو دے دیا مگر بتلایا جائے کہ انھی کے شاگرد رشید علامہ بنوری رحمہ اللہ نے جو التلخیص سے یہی حقیقت سمجھی ہے کیا وہ بھی