کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 315
پانچویں کیا چھٹے طبقہ میں شمار کیا ہے(التقریب: ص ۵۲۴) اور چھٹے طبقہ کے بارے میں انھوں نے فرمایا ہے کہ اس کے راویوں کو سماع کیا کسی صحابی کی زیارت بھی نصیب نہیں ہوتی مگرڈیروی صاحب کے ’’شیخ مکرم ‘‘ اور دیگر احناف اس کے برعکس فرماتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو صحابہ سے شرف رؤیت ہی نہیں بلکہ ان سے روایت بھی ثابت ہے۔ مقام ابوحنیفہ ص ۸۲، رد المحتار ، مقدمہ کتاب العلم وغیرہ) آخر کیا وجہ ہے کہ یہاں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا یہ فیصلہ قابل قبول کیوں نہیں؟ اس لیے ڈیروی صاحب کاتقریب التہذیب میں طبقہ خامسہ پر اعتماد ان کے تقلیدی ذہن کی عکاسی کرتا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور ابن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث
راقم نے توضیح (ج۱ ص ۲۲۲) میں نقل کیا ہے کہ ’’حافظ ابن رحمہ اللہ قیم فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔‘‘ تہذیب السنن کے حوالے سے ہم نے ان کا کلام بھی نقل کیا۔ ڈیروی صاحب فرماتے ہیں کہ اثری صاحب نے اس عبارت کاترجمہ نہیں کیا کیونکہ دل میں کچھ کالا کالا ضرور تھا۔‘‘ (ایک نظر: ص ۱۰۷) ۔ الحمدﷲ اس فقیر کا دل اس سے صاف ہے ۔ا س عبارت میں حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اگر یہ نہیں کہا کہ’’ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے‘‘ تو ڈیروی صاحب جو چاہیں کہیں لیکن جب یہ الفاظ موجود ہیں کہ ’’ وقال ھو صحیح‘‘ تو الزام دیتے ہوئے خود انھیں الله تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔
ڈیروی صاحب مزید فرماتے ہیں کہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کو اس بات سے دھوکا لگا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے رسالہ جزء القراء ۃ میں ابن رحمہ اللہ اسحاق کی توثیق کی ہے ۔ یہیں سے انھوں نے سمجھ لیا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے۔(ایک نظر: ص ۱۰۸) ڈیروی صاحب کو معلوم ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے فی الواقع ابن اسحاق کی توثیق کی ہے اور امام زہری رحمہ اللہ کی روایت کو مختصر اور ابن رحمہ اللہ سحاق کی روایت کو مفصل قرار دیا ہے اور یہی بات امام ترمذی رحمہ اللہ ، امام ابن حبان رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی کہی ہے اور حکایت واقعہ کی روایت میں عموماً خطا کا امکان کم ہوتا ہے ، بہ نسبت مختصر روایت کے۔ لہٰذا جب اصل روایت صحیح ہے تو مفصل روایت بھی تبعاً صحیح ہے بلکہ کئی محدثین نے اسے حسن ، صحیح قرار دیا ہے۔ اس بنا پر حافظ ابن