کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 313
علامہ ابن علان رحمہ اللہ بھی جھوٹ بول رہے ہیں؟ ڈیروی صاحب اس فقیر کے بارے میں دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے جو چاہیں کہیں مگر متقدمین کو تو کم از کم جھوٹا نہ کہیں۔ ڈیروی صاحب اور ان کے ہم خیال حضرات کی خدمت میں مزید عرض ہے کہ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ مکی نے بھی اس روایت کے بارے میں یہی کہا تھا کہ : ’’صححہ الترمذی والدارقطنی والحاکم والبیھقی والخطابی۔‘‘ جس کے بارے میں علامہ علی قاری رحمہ اللہ نے مرقاۃ (ج ۱ ص ۳۰۱) میں فرمایا تھا کہ تصحیح کا یہ حکم اصطلاح محدثین کے مطابق صحیح نہیں۔ مگر علامہ لکھنوی رحمہ اللہ نے ان کی یہ غلط فہمی یہ کہہ کر دور کر دی کہ ’’ بل ھو صحیح فان المحدثین کما یطلقون الصحیح فی مقابلۃ الحسن کذلک یطلقون فی مقابلۃ الضعیف ایضاً‘‘(السعایہ: ج ۲ ص ۳۰۲) اس روایت کی تصحیح بالکل صحیح ہے کیونکہ محدثین جس طرح حسن کے مقابلے میں صحیح کا اطلاق کرتے ہیں ، اسی طرح ضعیف کے مقابلے میں بھی صحیح کا اطلاق کرتے ہیں۔‘‘ گویا یہاں ضعیف کے مقابلے میں اس روایت کو صحیح اور قابل اعتبار قرار دیا گیا ہے اور یہ بالکل محدثین کے اصول کے مطابق ہے۔ ڈیروی صاحب چونکہ اس حقیقت سے بے خبر ہیں، اس لیے اسے جھوٹ سے تعبیر کرتے ہیں۔ بتلائیے علامہ لکھنوی رحمہ اللہ نے ’’جھوٹ‘‘ کی تائید کرکے ڈیروی صاحب کے ڈھول کا پول واضح کر دیا یا نہیں؟ کیا امام مکحول رحمۃ اللہ علیہ کا کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں؟ ڈیروی صاحب لکھتے ہیں: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فیصلہ کیا ہے کہ مکحول رحمہ اللہ طبقہ خامسہ میں سے ہے اور طبقہ خامسہ کے بارے میں انھوں نے یہ وضاحت کی ہے کہ ان کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی صحابی کو دیکھنا نصیب ہوتا ہے مگر روایت کرنا نصیب نہیں ہوتا۔ لہٰذا مکحول رحمہ اللہ کی روایت حضرت محمود بن ربیع سمیت کسی صحابی سے ثابت نہیں۔ محصلہ (ایک نظر: ص ۱۱۳) حالانکہ ڈیروی صاحب کا یہ دعویٰ قطعاً صحیح نہیں اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا حوالہ بھی ڈوبتے کو