کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 312
المنذری نے صرف امام ترمذی رحمہ اللہ کی تحسین نقل کرتے ہوئے خاموشی اختیار کی ہے۔ امام خطابی رحمہ اللہ نے اسنادہ جید لا مطعن فیہ کہا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی حسن کہا ہے۔ لہٰذا ان کی طرف تصحیح کی نسبت بہت بڑا جھوٹ ہے (ایک نظر: ص ۱۱۱، ۱۱۳)ملخصاً۔
اولاً: گزارش ہے کہ کلام کے سیاق وسباق اور اس کے پس منظر سے ہٹ کر ڈیروی صاحب نے جو فرمایا چلیے ہم اسے تسلیم کرتے ہیں بلکہ توضیح (جلد اول) میں اپنے محل پر اس کی وضاحت بھی موجود۔ کہ امام ترمذی رحمہ اللہ اور امام دارقطنی رحمہ اللہ نے صرف حسن کہا ہے، لیکن سوال تو پھر وہی رہا جو ہم ان کے ’’شیخ مکرم‘‘ سے کر چکے ہیں کہ اگر ابن اسحاق رحمہ اللہ میں واقعی کلام ہوتا یا مکحول مدلس اور لیس بالمتین ہوتا تو یہ حضرات اس کی حدیث کو ہرگز حسن، مستقیم الاسناد ، اسنادہ جید، لا مطعن فیہ نہ کہتے ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ کی تصحیح تو ابن عجلان رحمہ اللہ میں کلام کے غیر معتبر ہونے کا سبب بن جائے مگر امام بخاری رحمہ اللہ ، بیہقی رحمہ اللہ رحمہ اللہ ،ترمذی رحمہ اللہ وغیرہ کی تصحیح و تحسین ابن رحمہ اللہ اسحاق اور مکحول رحمہ اللہ میں کلام کے غیر معتبر ہونے کی دلیل نہ قرار پائے؟ اس لیے ڈیروی صاحب کا یہ اعتراض اصل بحث سے آنکھیں بند کرنے کا نتیجہ ہے اور بالکل دھوکا بازی کا مظاہرہ ہے۔
ثانیاً: جب ایک حدیث کو بعض محدثین نے حسن اور بعض نے صحیح کہا ہو تو توسعاً اہل علم کبھی سب کی طرف تصحیح کی نسبت کر دیتے ہیں اور یہ اس لیے کہ عمل کے لیے جیسے صحیح حدیث حجت ہے حسن بھی حجت ہے۔ اسی حدیث کے بارے میں دیکھیے علامہ ابن علان فرماتے ہیں:
صحیح لا مطعن فیہ و ممن صححہ الترمذی والدارقطنی والحاکم والبیہقی والخطابی وغیرھم ۔ (الفتوحات الربانیۃ : ج ۲ ص ۱۹۳)
کہ یہ حدیث صحیح ہے ۔ اس میں کوئی طعن نہیں اور جنھوں نے اسے صحیح کہا ان میں امام ترمذی رحمہ اللہ ، دارقطنی رحمہ اللہ ،بیہقی رحمہ اللہ اورخطابی رحمہ اللہ وغیرہ ہیں۔ لیجیے جناب! یہاں علامہ ابن علان رحمہ اللہ نے بھی فرمایا ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ ، دارقطنی رحمہ اللہ ،حاکم رحمہ اللہ اور خطابی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔ تو کیا