کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 311
ڈیروی صاحب کی حواس باختگی
ڈیروی صاحب مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ کے تحقیق الکلام اور تحفۃ الاحوذی کے موقف میں اختلاف ثابت کرتے ہوئے دھوکا بازی کا طعنہ دیتے ہیں حالانکہ کتابوں میں مختلف اقوال اختلاف رائے کا نتیجہ بھی ہو سکتے ہیں۔ مگر افسوس تو ڈیروی صاحب پر ہے کہ ایک طرف تو بخاری میں معمر رحمہ اللہ کے فصلی علیہ کے الفاظ کے بارے میں کہتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مقام پر معمر رحمہ اللہ کے تفرد کو قبو ل کیا ہے(ایک نظر: ص ۱۲۰)۔ گویا یہ الفاظ صحیح ہیں۔ دوسری طرف لکھتے ہیں ’’معمر رحمہ اللہ سے ’’ لم یصل‘‘ روایت کیا گیا ہے ‘‘(ایک نظر ص ۱۲۱) معمر رحمہ اللہ کا تفرد یہاں مقبول ہے تو اس کی راویت میں ’’ لم یصل‘‘ کیسے صحیح ہو گیا؟ بتلائیے یہ حواس باختگی اور انتشار فکری کا نتیجہ نہیں تو اور کیا ہے ؟
اسی واں دھوکا
ابن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کی تصحیح و تحسین
مولانا صفدر صاحب نے احسن الکلام (ج ۱ ص ۲۱۸،۲۱۹) میں ابن عجلان کے واسطہ سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث پر اعتراض کے جواب میں لکھا تھا کہ ابن عجلان میں واقعی کلام ہوتا تو محدثین کی ایک جماعت اس کی ہرگز تصحیح نہ کرتی۔ حالانکہ اس کی تصحیح امام احمد رحمہ اللہ ، امام مسلم رحمہ اللہ ، ابن حزم رحمہ اللہ ، نسائی رحمہ اللہ ، دارقطنی رحمہ اللہ وغیرہ نے کی ہے۔ اسی کے جواب میں راقم نے عرض کیا تھا کہ اگر بس اسی بنا پر کسی حدیث کو صحیح کہنا درست ہے تو حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو بھی امام بخاری رحمہ اللہ ، امام ترمذی رحمہ اللہ ، دارقطنی رحمہ اللہ ، ابن حبان رحمہ اللہ ، بیہقی رحمہ اللہ ،حاکم رحمہ اللہ ، منذری رحمہ اللہ ، الخطابی رحمہ اللہ ،ابن حزم رحمہ اللہ ، ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ نے صحیح کہا ہے۔ لہٰذا مولانا صفدر صاحب کے الفاظ میں عرض ہے کہ اگر محمد رحمہ اللہ بن اسحاق میں واقعی کلام ہوتا یا مکحول مدلس اور نافع مجہول ہوتا تو محدثین کی ایک جماعت اس حدیث کی ہرگز تصحیح نہ کرتی۔(توضیح : ۱؍۳۵۰،ا۳۵) ہمارے اس الزامی جواب کے بارے میں ہمارے مہربان ڈیروی صاحب لکھتے ہیں کہ امام ترمذی رحمہ اللہ اور امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ نے مستقیم الاسناد کہا ہے۔ علامہ