کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 310
ذکر نہیں ۔ پھر یہ روایت بھی ضعیف ہے کیونکہ حدثنی نفر من اھل البصرۃ مبہم و مجہول ہیں ۔ علامہ المنذری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ فی اسنادہ مجاہیل‘‘ اس کی سند میں مجہول راوی ہیں۔(عون المعبود: ج ۳ ص ۱۸۱) علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ نے بھی اسی بنا پر اسے ضعیف قرار دیا ہے۔(نصب الرایہ : ج ۳ ص ۳۲۲)
علاوہ ازیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی صحیح سند سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز رضی اللہ عنہ پر نماز جنازہ نہیں پڑھی (ابو داؤد : ج ۴ص ۲۵۳) ۔ علامہ نووی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے:’’ اسنادہ صحیح‘‘ اس کی سند صحیح ہے(نصب الرایہ : ج ۳ ص ۳۲۲) گویا حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہی لم یصل علیہ نہیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں بھی یہی ہے کہ آپ نے اس پر نماز جنازہ نہیں پڑھی۔ اب ان صحیح روایات کے مقابلہ میں مرسل اور ضعیف روایت کی بنا پر جنازہ کا اثبات کسی اعتبار سے درست نہیں۔ بعض حضرات نے ان کے مابین تطبیق کی کوشش کی ہے ۔ جمہور کے نزدیک یہی صحیح ہے کہ محدود(جس پر حد لگی ہو) کی نماز جنازہ پڑھنی چاہیے جیسا کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے الغامدیہ رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ پڑھی تھی اور اسی بنا پر ’’فصلی علیہ‘‘ کی روایت کو تسلیم کیا۔ مگر محدود کی نماز جنازہ پڑھنا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جناب ماعز رضی اللہ عنہ کاجنازہ پڑھنا دونوں میں فرق ہے۔صحیح روایت میں نہ پڑھنے کا ذکر ہے۔ علامہ ابن العربی نے بھی کہا ہے:
لم یثبت ان النبی صلي اللّٰه عليه وسلم صلی علی ماعز۔(فتح الباری: ۱۲/۶۳۱)
’’کہ یہ ثابت نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز رضی اللہ عنہ کا جنازہ پڑھا ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف معلوم ہوتا ہے جیسا کہ علامہ کشمیری رحمہ اللہ نے فرمایا ہے۔‘‘
او ر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بخاری میں محمود رحمہ اللہ بن غیلان کی روایت کی بنا پر جو کچھ فرمایاہے وہ محل نظر ہے۔ تحفۃ الاحوذی میں مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ نے بھی جو ان پر اعتماد کرتے ہوئے لکھا ہے وہ بھی درست نہیں۔ مولانا موصوف اگرغور فرماتے تو یقینا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی ہم نوائی نہ کرتے۔ اس کے برعکس جو کچھ انھوں نے تحقیق الکلام میں لکھا ہے وہی درست اور اقرب الی الصواب ہے۔