کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 307
امام بیہقی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ محمود رحمہ اللہ بن غیلان کا قول صلی علیہ خطا ہے عبدالرزاق کے باقی شاگردوں کا اتفاق اس کے خلاف ہونے کی بنا پر ۔ پھر زہری رحمہ اللہ کے باقی شاگردوں کا اتفاق (معمر رحمہ اللہ کے) خلاف ہونے کی بنا پرامام بیہقی رحمہ اللہ کا یہ کلام معرفۃ السنن (ج ۶ ص ۳۴۱) میں دیکھا جا سکتا ہے۔ گویا امام بیہقی رحمہ اللہ اس زیادت کو بہر نوع خطا قرار دیتے ہیں خواہ اس کا سبب محمو رحمہ اللہ د بن غیلان ہوں یا معمر رحمہ اللہ ، لہٰذا ڈیروی صاحب کا یہ کہنا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ خطا معمر رحمہ اللہ کی نہیں سراسر دھوکا اور ان کی مکمل عبارت نقل نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ ڈیروی صاحب نے دوسرا حوالہ فتح الباری (ج ۱۲ص ۱۱۳ ) کا دیا جس کا ترجمہ ڈیروی صاحب کے الفاظ میں یوں ہے:’’امام بخاری رحمہ اللہ پر اعتراض کیا گیا ہے کہ ان کے اس یقین کرنے پر کہ اس زیادت کے ساتھ معمر رحمہ اللہ منفر د ہے حالانکہ تفرد محمود رحمہ اللہ بن غیلان کا ہے اور محمود رحمہ اللہ بن غیلان کی بہت سے حفاظ نے مخالفت کرتے ہوئے لم یصل علیہ کے الفاظ روایت کیے ہیں۔ لیکن مجھ کو یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے ہاں محمود رحمہ اللہ بن غیلان کی روایت فصلی علیہ قوی ہے شواہد کی بنا پرا ور مولانا مبارک پوری نے تحفۃ الاحوذی (۲؍۳۲۱) میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے یہ عبارت نقل کرکے سکوت کیا ہے(ایک نظر : ص ۱۲۰) بلاشبہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے کلام سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ا س زیادت میں محمود رحمہ اللہ بن غیلان کا تفرد قرار دیتے ہیں مگر قابل غور بات یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جو ’’یقین‘‘ سے اس زیادت کو معمر رحمہ اللہ کا تفرد قرار دیا ہے ، کیا انھو ں نے کوئی دلیل اس ’’یقین‘‘ کے رد میں بیان کی ہے کہ معمر رحمہ اللہ تواس میں منفرد ہی نہیں؟ قطعاً نہیں۔ لہٰذا اس سے امام بخاری رحمہ اللہ کے موقف کی تردید کیوں کر ہوئی؟ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اگر محمود رحمہ اللہ بن غیلان کا تفرد قرار دیتے ہیں تو یہ ان کی اپنی رائے ہے جیسا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ ،علامہ منذری رحمہ اللہ اور حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی ایک رائے یہ قرار دی ہے۔ لیکن کیا اس سے معمر رحمہ اللہ کے تفرد کا ازالہ ہو جاتا ہے؟ بالکل نہیں۔ محمود رحمہ اللہ بن غیلان کے علاوہ امام عبدالرزاق رحمہ اللہ کے تقریباً پندرہ شاگرد لم یصل علیہ ذکر کرتے ہیں بلکہ ہم عرض کر چکے ہیں کہ المصنف عبدالرزاق (ج ۷ ص ۳۲۰) میں یہی روایت لم یصل علیہ کے الفاظ سے ہے۔اس کے بعد امام عبدالرزاق رحمہ اللہ کے تلامذہ کو دیکھنے کی چنداں ضرورت ہی کیا