کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 306
یہ ہے کہ معمر رحمہ اللہ نے ’’ولم یصل علیہ ‘‘ روایت کیا ہے۔‘‘ تو اب بخاری رحمہ اللہ کی روایت وصل علیہ کیسے درست قرار پائی ؟اور مبارکپوری مرحوم کے موقف کے یہ کیسے خلاف ہوئی؟ کہ ڈیروی صاحب اس بات کاڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں کہ مبارک پوری رحمہ اللہ نے ترجمہ نہ کرکے دھوکا دیاہے۔یہ عبارت توا ن کے خلاف پڑتی ہے۔
ہم یہاں مزید تفصیل میں جانا مناسب نہیں سمجھتے البتہ اتنا اشارہ ضروری ہے کہ علامہ زیلعی رحمہ اللہ نے نصب الرایہ (ج ۲ ص ۳۲۱،۳۲۲) میں اس روایت پر ذرا تفصیل سے بحث کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’ ولم یصل علیہ‘‘ کے الفاظ محمو د بن غیلان کے مقابلے میں محمد رحمہ اللہ بن المتوکل ، حسن رحمہ اللہ بن علی ، محمد رحمہ اللہ بن یحییٰ ، محمد رحمہ اللہ بن رافع ، نوح رحمہ اللہ بن حبیب وغیرہ نے کہے ہیں۔ بلکہ خود امام عبدالرزاق رحمہ اللہ کے المصنف(ج ۷ ص ۳۲۰) میں بھی یہ روایت ولم یصل علیہ کے الفاظ سے مرو ی ہے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی اس زیادت کو خطا ہی قرار دیا ہے جیسا کہ توضیح میں باحوالہ ذکر ہے۔ ڈیروی صاحب کی دیانتداری دیکھیے کہ انھوں نے السنن الکبریٰ (ج ۸ ص ۲۱۸)کی ادھوری عبارت نقل کرکے کہا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ کے نزدیک خطا معمر رحمہ اللہ کی نہیں بلکہ محمود رحمہ اللہ بن غیلان کی ہے(ایک نظر: ص ۱۲۱) حالانکہ جہاں انھوں نے یہ فرمایا ہے کہ ’’ رواہ البخاری عن محمود بن غیلان عن عبدالرزاق و قال فصلی علیہ‘‘ کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے محمود بن غیلان عن عبدالرزاق سے ’’ فصلی علیہ‘‘ا روایت کیا ہے اور وہ خطا ہے اس کے معاً بعد یہ بھی فرمایا ہے :’’ قال البخاری و لم یقل یونس و ابن جریج عن الزھری فصلی علیہ‘‘ کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایاہے کہ (معمر رحمہ اللہ کے برعکس) یونس رحمہ اللہ اور ابن جریج رحمہ اللہ نے زہری رحمہ اللہ سے فصلی علیہ نہیں کہا۔ یعنی یہ زیادت خطا ہے خواہ یہ محمود رحمہ اللہ سے ہو یا معمر رحمہ اللہ سے علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں:
قال البیہقی و قول محمد بن غیلان انہ صلی علیہ خطأ لاجماع اصحاب عبدالرزاق علی خلافہ ثم اجماع اصحاب الزھری علی خلافہ۔ (زاد المعاد : ج ۱ ص ۵۱۶)