کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 304
کہ بے شک معمر رحمہ اللہ ثقہ اور مامون راویوں میں سے ہے اور فقہاء متقی اور پرہیزگاروں میں سے ہے اور صحاح ستہ کا راوی ہے ۔ اس جیسے راوی کی زیادت اور تفرد قابل قبول ہے۔ (ایک نظر: ص ۱۲۱) اس ترجمہ کی خط کشیدہ عبارت پر غور کیجیے کہ معمر رحمہ اللہ کی اس زیادت پر ’’یقین‘‘ کے ساتھ تفرد کا حکم امام بخاری رحمہ اللہ کا ہے۔ جس کا جواب یہ ہے کہ معمر رحمہ اللہ ایسے ثقہ’’ راوی کی زیادت اور تفرد قابل قبول ہے‘‘ سوال یہ ہے کہ اگر امام بخاری رحمہ اللہ کا معمر رحمہ اللہ کے تفرد پر اعتراض ہی نہ تھا اور نہ ہی امام بخاری رحمہ اللہ اس میں معمر رحمہ اللہ کی خطا کی طرف اشارہ کر رہے ہیں تو علامہ عینی کا یہ فرمانا کہ معمر رحمہ اللہ ایسے ثقہ راوی کی زیادت اور تفرد قابل قبول ہے۔‘‘ چہ معنی دارد؟ اور پھر امام بخاری رحمہ اللہ پراعتراض ہی کیا رہ جاتا ہے ۔ جب معمر رحمہ اللہ سے یہاں خطا ہوئی ہی نہیں بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے معمر رحمہ اللہ کے تفرد کو قبول کیا ہے جیسا کہ ڈیروی صاحب فرما رہے ہیں تو علامہ عینی رحمہ اللہ کا اعتراض اور جواب چہ معنی دارد؟ افسوس ہے کہ ڈیروی صاحب نے اثری کی دشمنی میں علامہ عینی رحمہ اللہ کی بات پر ادنیٰ تامل بھی نہیں کیا ورنہ علامہ عینی رحمہ اللہ کی عبارت کو پیش ہی نہ کرتے۔ ڈیروی صاحب کی مزید تشفی کے لیے عرض ہے کہ علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ مرحوم لکھتے ہیں: مال البخاری إلی ان النبی صلي اللّٰه عليه وسلم لم یصل علیہ(فیض الباری: ۴؍۴۵۰)’’کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا میلان یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ماعز رضی اللہ عنہ پر نماز جنازہ نہیں پڑھی۔‘‘ اگر امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک یہ زیادت مقبول ہے تو نماز نہ پڑھنے کا میلان کیونکر درست ہوا؟جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اس زیادت کو صحیح تسلیم نہیں کرتے۔ اسی طرح علامہ زیلعی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: و فی موضع یغلب الظن خطأھا کزیادۃ معمر فی حدیث ماعز الصلاۃ علیہ رواھا البخاری فی صحیحہ وسئل ھل رواھا غیر معمر فقال لا، و قد رواہ اصحاب السنن الاربعۃ عن معمر و قال فیہ و لم یصل علیہ ، فقد اختلف علی معمر فی ذلک والراوی عن معمر ھو عبدالرزاق و قد اختلف علیہ أیضاً