کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 302
الامام کا حکم دیتے تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ کہتے ہوئے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے والمعروف عن ابی ھریـرۃ انہ کان یامر بالقراء ۃ(التاریخ الصغیر: ص ۸۹،۹۰) معروف بات ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ قراء ت خلف الامام کا حکم دیتے تھے اور یہی بات امام ترمذی رحمہ اللہ اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے تفصیلاً فرمائی ہے۔لہٰذا جب ثبوت ادراج کے لیے یہ تمام شقیں پائی جاتی ہیں تو اب اس کا انکار محض مجادلہ نہیں تو اور کیا ہے ؟ اگر ادراج کی نفی کا یہی ضابطہ ہے جس کا سہارا ڈیروی صاحب لے رہے ہیں تو مشکل سے ہی کوئی روایت مدرج قرار دی جائے گی۔ دور نہ جائیے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے : للعبد المملوک الصالح اجران والذی نفسی بیدہ لو لا الجھاد فی سبیل اللّٰه والحج و بر امی لأحببت ان اموت وانا مملوک۔ یعنی نیک غلام کے لیے دو اجر ہیں اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر الله کی راہ میں جہاد، حج اور والدہ سے حسن سلوک (کا احساس) نہ ہوتا تو مجھے یہ محبوب تھا کہ مجھے غلامی کی حالت میں موت آئے۔ یہ روایت انہی الفاظ کے ساتھ صحیح بخاری (ج۱ ص ۳۴۶) میں موجود ہے حالانکہ والذی نفسی کے الفاظ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ہیں۔ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی والدہ تو آپ کے بچپن ہی میں فوت ہوگئی تھیں۔ اس لیے ان کا مرفوع ہونا محال ہے (صحیح مسلم : ۲؍۵۳) اور مسند امام احمد (ج ۲ ص ۳۳۰) میں اس کی بھی صراحت ہے کہ یہ قول حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا ہے۔ تو اب کیا صحیح بخاری میں ہونے کی وجہ سے اسے مرفوع تسلیم کیا جائے گا؟ ملاحظہ ہو فتح الباری (۵؍۱۷۶) وغیرہ۔ اس لیے اگر امام مالک، امام نسائی وغیرہ نے صراحت نہیں کی ،امام بخاری رحمہ اللہ ، امام ذہلی رحمہ اللہ ، امام ابو داؤد رحمہ اللہ ، امام ابن حبان رحمہ اللہ ، امام ترمذی رحمہ اللہ ، امام بیہقی رحمہ اللہ نے تواس کی صراحت کر دی ہے ۔ اس کے مدرج ہونے کے باقی اسباب بھی پائے جاتے ہیں ۔ اس لیے اس کا انکار کسی اعتبار سے بھی درست نہیں۔ امام مالک رحمہ اللہ وغیرہ کی سند سے یہ روایت امام بخاری رحمہ اللہ ، امام ترمذی رحمہ اللہ ، امام ابو داؤد رحمہ اللہ ، امام ابن حبان رحمہ اللہ وغیرہ نے ذکر کی مگر