کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 301
ہم بحوالہ عرض کر چکے ہیں کہ یہ فیصلہ امام بخاری رحمہ اللہ ، امام ذہلی رحمہ اللہ ، امام ابن حبان رحمہ اللہ ، امام ترمذی رحمہ اللہ ، امام ابوداؤد رحمہ اللہ ، امام یعقوب بن شیبہ رحمہ اللہ ، امام بیہقی رحمہ اللہ ، خطیب بغدادی رحمہ اللہ ،علامہ خطابی رحمہ اللہ ، علامہ ابن الملقن رحمہ اللہ ، امام نووی رحمہ اللہ ، امام ابن حجر رحمہ اللہ ، علامہ ابن العربی رحمہ اللہ ، علامہ سیوطی رحمہ اللہ کا ہے۔بلکہ علامہ نیموی رحمہ اللہ حنفی نے بھی لکھا ہے کہ : ان جمعا من الحفاظ قد اتفقوا علی ان ھذہ الزیادۃ مدرجۃ من کلام الزہری ۔ (التعلیق الحسن : ص ۸۸) حفاظ حدیث کی ایک جماعت کا اتفاق ہے کہ یہ زیادت امام زہری رحمہ اللہ کی مدرجہ ہے۔ ان کے مقابلے میں متقدمین ائمہ ناقدین میں سے وہ کون حضرات ہیں جو فرماتے ہیں۔ یہ قول امام زہری رحمہ اللہ کا نہیں بلکہ حدیث کے ساتھ متصل امام ابوہریرہ رحمہ اللہ کا ہے۔ دوسری گزارش یہ ہے کہ ڈیروی صاحب نے امام مالک رحمہ اللہ ، امام نسائی رحمہ اللہ وغیرہ کا جو نام لیا اور فرمایا کہ ان حضرات نے یہ روایت مکمل طو رپر نقل کی اور کسی نے بھی مدرج ہونے کا حکم نہیں لگایا،یہ نہایت سطحی بات ہے ، بلکہ اپنے ناخواندہ قارئین کودھوکا دینے کے مترادف ہے۔کیونکہ ادارج کے ثبوت کے لیے جو ضابطہ محدثین کے ہاں ہے اس کے مطابق یہ قطعاً حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول نہیں۔ چنانچہ ڈیروی صاحب کے شیخ مکرم لکھتے ہیں: ادارج کے ثبوت کے لیے محدثین کرام نے جو قواعد بیان فرمائے ہیں وہ یہ ہیں کہ مدرج حصہ کسی دوسری روایت میں الگ آیا ہو یا راوی صراحت سے بیان کر ے کہ مدرج ہے یا اطلاع پانے والے اماموں سے کوئی تصریح کرے یا اس قول کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثبوت ہونا محال ہو۔ ‘‘ (تسکین الصدور : ص ۳۲۲ ، بحوالہ تدریب الراوی) قابل غور بات ہے کہ کیا یہ جملہ حدیث میں الگ طور پر نہیں ایا؟ کیا راوی نے قول زہری رحمہ اللہ ہونے کی صراحت نہیں کی ؟ کیا ’’اطلاع پانے والے اماموں‘‘ میں سے کسی نے بھی یہ تصریح نہیں کی کہ یہ مدرج ہے ؟ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا یہ فرمان تو ہے نہیں، مگر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف اس کا انتساب اس لیے محال ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تو خود قراء ۃ خلف